Sep
15
|
Click here to View Printed Statement
متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ جماعت اسلامی ہی ہے۔ اب کی بار جماعت کے رہنماء صوبائی کی بجائے قومی سیاست میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔جماعت اسلامی نے ملک کی سیاسی اور جہادی تاریخ میں ہمیشہ عمل انگیز کا کام کیا ہے۔جماعت اسلامی کے تھنک ٹینک اب مصر’تیونس اور ترکی کے تجربات کو پاکستانی سیاست میں آزمانے کے لئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔سولو فلائٹ کی بجائے ہمخیال سیاسی جماعتوں کا اتحاد ان کا سیاسی فلسفہ دکھائی دیتا ہے ۔ اس لئے مولانا فضل الرحمن اگر جماعت اسلامی کے تمام مطالبات مان بھی لیں تو بھی اب کی بار متحدہ مجلس عمل بحال نہ ہوپائے گی۔ ایں کارمحال است!خیبرپختونخواہ کی سیاست پر جے یو آئی کی سیاسی گرفت برسوں سے قائم ہے اور قائم رہے گی۔ انیس بیس کے فرق سے ہر الیکشن میں مولانا کی معقول تعداد میں سیٹیں نکل آتی ہیں لیکن معاملہ سیٹیں نکالنے کا نہیں کلی اقتدار کا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں کہنے کو کئی مذہبی سیاسی جماعتیں شامل تھیں لیکن حقیقت میں یہ حکومت جے یو آئی کی تھی۔جماعت اسلامی نے تو محض فضا بنانے اور لوہا گرمانے کے لئے اپنی تنظیمی صلاحیتیں استعمال کی تھیں۔ لیکن جب اقتدار میں حصہ داری کا موقع آیا تو جماعت اسلامی کو محض” جھونگا” ملا اور اصل اقتدار مولانا برادران کے پاس رہا۔ جماعت اسلامی والے اب کسی طور پر بھی متحدہ مجلس عمل کی بحالی نہیں چاہتے کیونکہ وہ ایک سوراخ سے دوبارہ ڈسنا نہیں چاہتے۔ مولانا نے ہمیشہ مجلس عمل کی بحالی کی جلد خوشخبری دینے کی امید دلائی ہے۔قبلہ نے بحالی کے عمل میں کبھی جماعت کے امیر سید منور حسن کو رکاوٹ قرار دیا اور کبھی دفاع پاکستان کونسل اور ملی یکجہتی کونسل کو حرف تنقید بنایا ہے۔ جماعت اسلامی کے زعماء کا خیال ہے کہ مولانا نے جناب آصف علی زرداری کے اقتدار اور اختیار کو طوالت بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور جب بھی قوم کو مولانا کی ضرورت پڑی وہ حکومت کے ”چرنوں” میں دکھائی دیئے۔
ایک سچ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو صرف ایک شخص سمجھ سکتا ہے اور اس شخصیت کا نام جناب آصف علی زرداری ہے ۔ دوسرا سچ یہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری کی سیاست کو صرف ایک ہی شخص سمجھ سکتا ہے اور ان کا نام ہے جناب مولانا فضل الرحمن۔ ایک دوسرے کو خوب سمجھنے والے دونوں سیاستدان اپنی دورنگاہی میں سمندر کی طرح گہرے اور کوہستان کی طرح بلند وبالا ہیں۔ جناب زرداری نے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کر لیا ہے جو تجزیہ نگاروں کی پیشنگوئیوں سے بالکل مختلف نکلے گا۔اورجناب مولانا فضل الرحمن نے جو منصوبہ ترتیب دیا ہے اس بارے بھی حتمی طور پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ جبہ ودستار سے کب کیا نکلے کچھ کہنا مشکل ہے۔لیکن مولانا کے چند بیانات ایسے ہیں جن سے مستقبل کے خدوخال واضح ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔آج کل مولانا پھر سے طالبانی سوچ کے مبلغ دکھائی دے رہے ہیں۔”اگر شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوا تو جے یو آئی قبائل کے ساتھ کھڑی ہوگی” گویا مولانا ایک بار پھر ”کتاب اللہ” کے نام پر ووٹ سمیٹنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔کراچی میں مولانا کے جلسے نے تمام مذہبی جماعتوں کو خوفزدہ کردیا تھا۔ عمران خان کے فن کاروں نے جس گرائونڈ میںجم غفیرکو گھنٹوں منتظر رکھا۔ اس کے مقابلے میں مولانا کے چاہنے والے تعداد میں عمران سے کہیں زیادہ نظر آئے اورانہیںمولانا کے انتظار نے پرلطف رکھا۔رازداں کہتے ہیں کہ مولانا کو طالبان کی طرف سے دھمکیاں اب کم مل رہی ہیں۔ طالبان کے پاس پاکستان کے اندر سیاسی اثرورسوخ کا واحد راستہ بھی مولانا فضل الرحمن کی ذات گرامی ہی ہے ۔جماعت اسلامی اب جہادی قوتوں سے رشتہ توڑ چکی ہے اور اس کے دامن سے وابستہ لاکھوں ٹرینڈ جہادی مختلف جہادی گروپوں سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ جنہوں نے ”طالبان خان” کا عرف حاصل کرنے کے لئے ٹی وی سکرین پر بہت محنت کی تھی وہ بھی ”سیکولر” قرار دیئے جاچکے ہیں’انہوں نے شمالی وزیرستان میں امن مارچ کی بجائے جنوبی وزیرستان جانے کا اعلان کردیا ہے۔ لہٰذا اب مولانا کی گنجائش پیدا ہو رہی ہے اور وہ آئے روز حکومت پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ جے یو آئی کے بارے میں پاکستان کے اکثریتی مسلک کا خیال ہے کہ یہ لوگ قیام پاکستان کے مخالف تھے اور ان کا کعبہ ”دیوبند” بھارت میں ہے ۔مولانا چند سال قبل دیوبند کانفرنس میں شرکت کے لئے بھارت تشریف لے گئے اور وہاںجا کر انہوں نے بھارت سے دوستی کی خوب باتیں کی تھیں لیکن آجکل مولانا بھارت دوستی کے سب سے بڑے دشمن بن کر سامنے آئے ہیں۔”کشمیر میںظلم ہورہا ہے اور ہم بھارت سے تجارت کر رہے ہیں ” یوں آجکل جب (ن) لیگ ہی نہیں جماعت اسلامی تک بھارت دوستی کے حمایتی ہوچکے ہیںمولانا واحد اتحادی ہیں جو حکومت کی پالیسی کا کھلم کھلا پوسٹ مارٹم کر تے ہیں۔