Sep
22
|
Click here to View Printed Statement
پاک بھارت دوستی کی اس قدر دھول اڑائی جارہی ہے کہ دوست دشمن کا چہرہ پہچاننا مشکل ہوگیا ہے۔سرکاری ٹی وی پر بھی بھارتی اشتہارات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔کترینہ کیف اور سیف ہمارے ٹی وی چینلز کے اندر خون بن کر دوڑ رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سوچ اور عقل کے سارے دھارے اب سرحد پار سے پھوٹتے ہیں اور ہم یہاں بیٹھے انہی لفظوںاورانہی استعاروں کی مالا جپتے اور ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ہمارا مقبول ترین سلوگن اب ”نچ لے” بن چکا ہے۔ملی غیرت اور قومی حمیت جیسے الفاظ لکھنے اور بولنے پر دْشنام طرازیوں کے پے در پے وار سہنے پڑ رہے ہیں۔”چھڈوجی پاگل جے” یہ ہے بھارت نواز دانشوروں کی وہ پھبتی جو ”امن کی آشا” اور ”مفادات کی فحاشہ” پر تنقید کرنے پر کسی جاتی ہے۔امن کس کو نہیں چاہیے؟پاکستانیوں کو امن کی جس قدر ضرورت ہے شائد دنیا کی کسی اور قوم کو ہو۔ جہاں ہرروز خون بہتا ہو’لاشے گرتے ہوں’ روحیں تڑپتی ہوں اور بے یقینی ایمان شکنی کی حدیں چھونے لگے وہاں امن کی خواہش کون نہیں کرے گا۔ہمسایوں کے ساتھ پْرامن رہنا ہمسایوں سے زیادہ ہماری ضرورت ہے۔لیکن کیا لفظ امن امن کی گردان کرنے سے امن قائم ہوجاتا ہے؟ آزمودہ قول ہے کہ ظلم اور امن ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ظلم رہے اور امن بھی ہو یہ ناممکنات میں سے ہے۔مظلوم وقتی طور پر ظلم کے سامنے دب سکتا ہے۔
لیکن وہ ظلم کو ہضم نہیں کرسکتا۔بھارتی وزیر خارجہ مسٹرکرشنا کی آمد کے موقع پر حکمران ٹولے کی باچھیں کھل رہی تھیں اور وہ آسان ویزا جیسی بے معنی لایعنی تجاویز پر جھوم جھوم کر ہلکان ہورہے تھے۔ ہمارے ٹی وی چینلز اور ان کے اینکرزپاک بھارت بہتر تعلقات کی اس لمحاتی صورتحال کو ترستی نگاہوں اور للچائے ہوئے لہجوں کے ساتھ قوم کے دل و دماغ میں اتارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک ٹی وی چینل”سروں کی جنگ” چھیڑ رہا ہے۔ اور پاکستان اور بھارت کے گویوں کے مقابلوں کو قومی سطح کی ہاراور جیت کا درجہ دے رہے ہیں۔ کہاں کشمیر کی آزادی کے لئے ہزار سال تک جنگ کرنے والے اور کہاں اب اداکاروں’فنکاروں’گلوکاروں اور غیرت فروش جتھوں کی پرفارمنس اور ادائوں کو قومی بقا کی جنگ قرار دینے والے بونے سیاستدان!!!کرشنا آئے ‘مینار پاکستان گئے’خوش ہوئے اور واپس چلے گئے۔ کیا فرق پڑے گا۔ کیا دہلی نے پاکستانی دریائوں پر ڈیم بنانے بند کردیئے ہیں؟ کیا سرکریک کی چوٹی مل گئی ہے اور کیا کشمیر سے فوجیں واپس چلی گئی ہیں کیا فرق پڑا ہے۔ تجارت ‘تجارت ایک اخبار نے لکھا ہے کہ بالآخر پاکستان نے بھارت کی یہ نصحیت قبول کر لی ہے کہ کشمیر چھوڑ کر تجارت کرو۔ماضی کو بھول کر مستقبل کے بارے میں بات کرو۔ اس سے بڑی ناکامی کیا ہوگی؟ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان نے کشمیر کے لئے تین جنگین لڑی ہیں اور آدھا ملک گنوایاہے۔ہم پوچھتے ہیں کہ اگر پاکستان نے یہ تین جنگیں نہ لڑی ہوتیں تو کیا ضمانت تھی کہ یہ ملک آج صفحہ ہستی پر موجود بھی ہوتا؟ کیا بھارت یہ ضمانت فراہم کرتا کہ ”پاکستان کے معصوم لوگو! تم نے ہندوستان کو تقسیم کرکے بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ہم ا س پر خوش ہو کر تمہارے وجود کے تحفظ کا عہد کرتے ہیں”۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر بھارت تقسیم ہند کے فارمولے پر عملدرآمد کرتا تو آج ہم دونوں ملک پرامن ہمسایوں کی طرح رہ رہے ہوتے۔لیکن جب ایک جابر نے میری شہ رگ پائوں سے دبا رکھی ہے تو میں کس طرح امن سے بیٹھا رہوں گا۔مجھے یہ سمجھانا کہ دیکھو امن سے پڑے رہو اور آہستہ آہستہ موت کی طرف لپکتے جائو۔ظلم کی انتہائی صورت ہے۔مولانا فضل الرحمن نے بالکل ٹھیک نشاندہی کی ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی تمام مسائل کی ماں ہے۔آپ مسئلہ کشمیر حل کردیں باقی کے تمام مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ ہمارے سارے دانشور بھارتی لابیوں کے دلائل کے اسیر ہوتے جارہے ہیں۔ وہ مولانا کے پرمغز بیان پر دھیان دیں اور ٹماٹرپیاز کی تجارت کے دھوکے میں نہ آئیں ۔ ضروری نہیں کہ ہم ابھی جنگ ہی کریں ‘ لیکن مسئلہ کو زندہ رہنے دیں ‘ظلم کو ظلم کہتے رہیں۔حالات اگر آج بھارت کے حق میں ہیں تو کل پاکستان کے حق میں بھی جاسکتے ہیں۔!