Jul
22
|
Click here to View Printed Statement
لوگو ں نے ایک تصویر دیکھی۔ محترم میاں محمد نوازشریف تھری پیس سوٹ میں ملبوس ہزاروں ایکڑوں پر پھیلے اپنے رائے ونڈفارم کے سرسبز باغ میں برطانیہ کے وزیر خارجہ ملی بینڈ کے ہمراہ چہل قدمی فرما رہے تھے۔ایسی تصویر سیاست ہوتی ہے ۔ اندھیروں میں ڈوبی سولہ کروڑ عوام اپنے رہنماﺅںکی خوشحالیاں دیکھ کر شائد خوش ہوجاتے ہوں گے۔ حالانکہ جناب میاں صاحب چاہتے تو ملی بینڈ کو لکشمی چوک لے جاتے جہاں عذاب کی صورت میںنازل ہونے والی لوڈشیڈنگ سے گھبرائے ہوئے لاہوری دھوتیاں اٹھائے حکمرانوں کی غفلتوں کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔رائے ونڈ فارم میں سے ہی ایک دوسری تصویر سامنے آئی۔ جناب زرداری جو کہ صدر پاکستان بھی ہیں وہ جناب میاں نوازشریف کے ساتھ چار گھنٹے گزارتے ہیں۔میاں صاحب اپنے وسیع دسترخوان پر جناب زرداری کے لئے مغلئی بریانی کا اہتمام فرماتے ہیں اور صدرزرداری صاحب انہیں قالین کا تحفہ پیش کرتے ہیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں لوڈشیڈنگ کا کہیں ذکر نہیں ہوتاکیونکہ یہ سیاست ہوتی ہے ۔اقتدار میں حصہ داری‘بندر بانٹ اور باری لینے دینے کے جھگڑے ہوتے ہیں۔
پنجاب بھر میں لوڈشیڈنگ کےخلاف پر تشدد مظاہرے جاری ہیں اورپیپلزپارٹی کے ذرائع کے مطابق رائے ونڈ والوں کی طرف سے ہی ایسے مظاہروں کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔اگرچہ جناب زرداری اور میاں نوازشریف کی ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اپنے کارکنوں کو حکومت مخالف سرگرمیوں سے دور رہنے کی ہدایات جاری کردی تھیں لیکن پی پی والوں کو پورا یقین ہے کہ جس طرح لوڈشیڈنگ کارڈ کو انہوں نے (ن) لیگ کیساتھ مل کر (ق) لیگ حکومت کیخلاف استعمال کیا گیا تھا اسی طرح اب (ن) لیگ اسے پی پی کیخلاف استعمال کر رہی ہے۔
(ن) لیگ کی آجکل پانچویں گھی میں ہیں۔ وہ ایک طرف حکمران جماعت بھی ہے اور دوسری جانب حزب اختلاف بھی ۔ حزب اختلاف کی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے جناب چوہدری نثار کی سربراہی میں ایک ڈیسک کام کر رہا ہے ۔جبکہ اقتدار کے مزے لولٹنے کے لئے پنجاب کا وسیع علاقہ ہاتھ میں ہے چونکہ میثاق جمہوریت کا احترام بھی ضروری ہے اس لئے (ن) لیگ کسی ماورائے جمہوریت اقدام کی حامی نہیں۔ جمہوری طریقے سے جناب زرداری کو وزیراعظم گیلانی کیخلاف بھڑکایا جارہا ہے اور جناب گیلانی کو بھرپور حمایت کی یقین دہانیاں بھی کرائی جارہی ہیں۔ گویا سیاسی حماقتیں جاری ہیں۔
کراچی کے حالات قابو سے باہر ہو کر ٹارگٹ کلنگ‘ بارش برد اور جلاﺅ گھیراﺅ کی حدیں بھی پھلانگ رہے ہیں۔جناب الطاف حسین لندن سے دن میں تین بار بیانات جاری فرماتے ہیں لیکن حد یہ ہے کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔بجلی نہیں ۔آب وبرق کا یہ انوکھا امتزاج پچاس شہریوں کی جانیں لے چکا ہے۔ ایم۔ کیو ۔ ایم حزب اقتدار کا حصہ ہے لیکن گاہے بگاہے حزب اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے پریس کانفرنسیں بھی فرماتی رہتی ہے۔ اعتماد جیسی جنس اب کراچی میں پائی ہی نہیں جاتی ۔ پی پی پی کو ایم۔ کیو ۔ ایم پر اعتماد نہیں اور نائن زیرو کی نظریں سندھ کے وزیر داخلہ کو خارج کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔
صوبہ سرحد کی سیاست افواج پاکستان کی قربانیوں کے طفیل ایک بار سوات اور مالاکنڈ میں داخل ہوگئی ہے لیکن اے این پی کی بچی کھچی قیادت فنڈز بانٹنے بلکہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق فنڈز خردبرد کرنے میں مصروف ہے۔ کسی کو توفیق ہی نہیں کہ وہ دیگر سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر مولانا فضل اللہ کے ”لائیو“ خطبوں کا ہی مقابلہ کرسکے۔ اب کی بار اگر ان علاقوں سے سیاست فرار ہوئی تو پھر اسے ”ہوتی ہاﺅس“ میں بھی پناہ نہ مل پائے گی۔
وقت ایک بار پھر سے یہ ثابت کرنے جارہا ہے کہ پاکستان کی سیاست سراسر حماقت ہے اور اس حماقت کے نتیجے میں عوام کے اندر بغاوت کے آثار پوری طرح نمایاں ہیں۔
پولیس پارٹیوں پر حملے کرنے والے مظاہرین کا مطالبہ ” وزیراعظم نوازشریف“ نہیں صرف ”گوزرداری گو“ ہے۔ اس بغاوت سے وہی طاقتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں جن کو ”گڈگورننس“ اور نظم و ضبط برقرار رکھنے کا وسیع تجربہ ہے اور جنہوں نے ”طالبان“ جیسے خوف کی آنکھوں میں آنکھیںڈالی ہیں۔وہی لوڈشیڈنگ کے جن کو بھی بوتل میں بند کرسکتے ہیں۔ خدا خیر کرے!