Dec 03

Click here to View Printed Statement

تکبّر اور غرور انسانی بیماریوں میں سے انتہائی خطرناک بیماری ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے” خدا تکبّر کرنے والے اور بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا”۔تکبّر کرنے والے بدقسمت شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ تندخو ہوتا ہے۔نرم گوئی ‘شفقت’دلنوازی اور درگزر سے کام لینے کی صلاحیت چھن جاتی ہے اور بیگانے تو بیگانے اس کے اپنے بھی اس کا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔ عام شخص تو تکبّر اور غرور کی حالت میں مبتلا ہو کر صرف اپنی ذات کا نقصان کرتا ہے لیکن جس شخص کو امت اور قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا ہو اس کے لئے یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوتی اوراس کا قافلہ بددل ہو کر بکھر جاتا ہے۔

اقبال نے اسی فلسفے کو یوں بیان کیا ہے کہ’کوئی کاررواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سےکہ میرکاررواں میں نہیں خوئے دلنوازیعمران خان کے مخالفین ہی نہیں ان کے قریب رہنے والے اور سالہا سال ان کی ہمرکابی میں روز وشب گزارنے والے دوستوں کا خیال ہے کہ عمران کے اندر خوئے دلنوازی نہیں ہے اور ان کی شخصیت میں غرور اور تکبّر کا عنصر غالب رہتا ہے۔ وہ ایک پاپولر رہنما ہونے کے باوجود اپنے بارے میں پائے جانے والے اس تصور کو کم یا ختم نہیں کرسکے۔عمران خان کے ”سونامی” میں شامل ہونے والوں کی تعداد جس قدر زیادہ ہے اسی تعداد میں لوگ ان سے دور بھی ہٹ رہے ہیں اور سیاسی قدوقامت والی شخصیات نے عمران کو چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ ان کے متکبرانہ  رویے کو قرار دیا ہے۔ جب کوئی لیڈر یہ یقین کرلے کہ اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے صرف وہی نیک اور ایماندار ہے تو پھر یہ تکبّر کی بدترین حالت ہوتی ہے اورا چھے لیڈر کی سب سے بڑی اچھائی یہ ہوتی ہے کہ وہ بیماری کی نشاندہی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے رویہ میں جوہری تبدیلی لائے تاکہ اس سے دور بھاگنے والے اس کی نرم خوئی اور دلنوازی سے متاثر ہو کر قافلہ میں پھر سے شامل ہوجائیں۔اسی جذبہ تعمیر سے مغلوب ہو کر راقم نے جناب عمران خان کو ان کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے تصور سے آگاہ کرتے ہوئے سوال کیا”’اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے اپنے اور مخالفین دونوں کا خیال ہے کہ عمران خان متکبر ہیں۔ایسا ہے یا نہیں لیکن کیا آپ اپنے بارے پائے جانے والے اس تصور (Perception) کو تبدیل کرنے کا کوئی راستہ نکا لیں گے”۔ اس سے قبل کہ میرے سوال کا کوئی معقول جواب خود عمران خان دیتے’ ان کے پہلو میں کھڑے ایک بیس سالہ نوجوان نے جوش جذبات میں راقم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا”’دیکھیں جی میں پچھلے سولہ برس سے عمران بھائی کے ساتھ ہوں۔ میں چھوٹا سا تھا جب عمران بھائی کے ساتھ آیا۔میں نے خان صاحب کے اندر تکبر والی کوئی بات نہیں دیکھی”۔کالم نگار اور اینکرپرسن اس نوجوان کی بات پر ہلکا سا مسکرا کر رہ گئے۔ کیونکہ نوجوان کے دعوے کو سچ مانیں تو وہ چار برس کی عمر میں تحریک انصاف میں شامل ہوگیا تھا۔”دیکھیں جی۔ میں متکبر نہیں ہوں۔آپ یہاں جتنے لوگ بیٹھے ہیں آپ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے اندر میرے جیسا خوف خدا ہو۔” عمران کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ ہمارے ایک دوست کالم نگار نے لقمہ دیا ”جناب خان صاحب آپ نے کہا کہ آپ سے زیادہ خوف خدا رکھنے والا ہم میں سے کوئی بھی نہیں یہ بھی تو تکبر کی ہی ایک علامت ہے۔” خان صاحب شائد غصے میں آگئے تھے لیکن انہوں نے کمال مہارت سے اپنے غصے پر قابو پایا کیونکہ ان کے ہیڈ آفس اسلام آباد میں  بلائی گئی کالم نگاروں اور صحافیوں کی اس نشست میں تقریباً ساری ہی نامور شخصیات موجود تھیں۔”سنیں جی۔عمران بھائی کا معاملہ تو درویشوں والا ہے۔ان کے کوٹ میں دو سو سوراخ ہیں۔شائد اب بھی ہوں۔میں نے خان صاحب سے کہا کہ آپ یہ کوٹ بدل کیوں نہیں لیتے تو انہوں نے کہا کہ تم مجھے بھی نوازشریف جیسے لوگوں کی طرح بنانا چاہتے ہو”۔تحریک انصاف کے ایک اور کارکن نے خان صاحب کو کمک پہچانا ضروری سمجھتے ہوئے صفائی پیش کی۔راقم نے اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالے سے بھی جناب خان صاحب سے سوال کیا لیکن انہوں نے اس کا جواب انتہائی بددلی سے دیا اور بظاہر ہنستے ہوئے مجھے پھر ایک بار باور کرایا کہ وہ ہرگز متکبر نہیں ہیں۔میرا مقصد یہ کبھی نہیں رہا کہ میں دوسروں کے بلاوجہ عیب ٹٹولوں۔ لیکن رہنمائوں کا معاملہ کچھ اور ہے ۔عمران خان پر نوجوانوں کی اکثریت جان نچھاور کرنے پر تیار رہتی ہے ۔میری دعا ہے کہ وہ ضرورکامیاب ہوں۔ لیکن میں ان کی خامیوں پر خوبیوں کی مصنوعی ملمع کاری کرکے ان سے کسی شاباش کا متمنی نہیں ہوں۔انہیں سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ بھی ایک  انسان ہیں اور ان کے رویے میں کمزوری ہوسکتی ہے۔ رکھ رکھائو اور وضع داری ہمارے سماج کی روح  ہے۔ جب تک عمران خان پاکستانی معاشرے کی وضع داری’دلجوئی اور رکھ رکھائو کو نہیں اپناتے وہ اپنے قریب تر ہونے والوں کو کھوتے رہیں گے۔ لاپرواہی اور کسی کو خاطر میں نہ لانے کا دوسرا نام تکبر ہی ہوتا ہے۔بہتری کے لئے دعا گوہوں کہ تبدیلی ہم سب کی خواہش ہے!!

 

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply