Dec
04
|
Click here to View Printed Statement
آج کل کالا باغ ڈیم کا ایشو پورے زوروشور کے ساتھ زیر بحث ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد قومی سیاست دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ۔سال دو سال قبل ڈیم کے بارے میں بات کرنا گناہ عظیم بن چکا تھا۔ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس بندیال نے اپنے فیصلے میں حکومت کو مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کا حکم دے دیا ہے۔اب بال حکومت کے کورٹ میں ہے۔ وہ چاہے تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرے’ چاہے ڈیم کے ایشو کو دوبارہ مشترکہ مفادات کونسل میں لے جائے’ کوئی نہ کو ئی و اضح حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی۔
پیپلزپارٹی ‘سندھ کی نیشنلسٹ پارٹیاں اور خیبرپختونخواہ کی حکمران جماعت اے ۔این ۔پی نے دھمکیوں کا روایتی انداز اختیار کیا ہے۔”ڈیم بنانے کے لئے سندھ میں چھ کروڑ لاشیں گرانا پڑیں گی”۔سندھی قوم پرستوں نے دھمکی دی اور دوسری جانب اے این پی نے ”کالاباغ ڈیم نہیں بننے دیں گے’ یہ ہمارے لئے موت اور زندگی کا مسئلہ ہے ”۔ادھر پنجاب کے تقریباً تمام سیاسی اور معاشی حلقوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی پنجاب نے کھل کر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سراہا ہے اور ڈیم تعمیر کرنے کے لئے حکومت پر دبائو ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان سرائیکی پارٹی نے بھی ڈیم کی تعمیر کی مشروط حمایت کردی ہے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب شہبازشریف نے کہا ہے کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پڑی تو وہ خود چل کر صوبوں کے پاس جائیں گے۔اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے فریم ورک مہیا کرنا مرکزی حکومت کا کام ہے۔
کالا باغ ڈیم پرپنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کا مئوقف بڑا محتاط ہے۔ وہ کھل کر لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی مخالفت کبھی نہیں کریں گے۔بحث اور جواب درجواب کے ماحول نے اس اشو کو اس قدر گرما دیا ہے کہ اس کی تپش گلگت ‘ بلتستان تک محسوس کی جارہی ہے۔گزشتہ ماہ اسلام آبادکلب میں معروف کالم نگار اور اینکرپرسن جناب مظہر برلاس نے ایک شام سجائی۔انسانی خدمت میں مصروف حق باہو کے گدی نشینوں کے اعزاز میں اس عشائیہ و دُعائیہ تقریب میں شہر کے معززین کی کثیر تعداد جمع تھی۔ کشمیر اسمبلی کی قائم مقام سپیکر محترمہ شاہین ڈار نے مختصر سی تقریر میں 2005ء کے زلزلہ کا ذکر کیا اور اس دوران حق باہو والوں کی طرف سے کی گئی مدد کا ذکر ہوا اور پھر انہوں نے ڈیموں کے حوالے سے کہا کہ” پاکستان کے لئے پانی کشمیر سے آتا ہے’لیکن ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا”۔
محترم شاہین ڈار کے بعد ہر دلعزیز شخصیت اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ جناب مہدی شاہ نے گلہ کیا کہ دریائے سندھ میں آنے والا پانی گلگت بلتستان سے جنم لیتا ہے ۔ہم سے کوئی نہیں پوچھتا کہ ڈیم بنانا چاہیے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ بڑی مشکل سے بھاشا کے آگے دیامر کا لفظ لگایا گیاہے۔ لیکن رائلٹی کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوپارہا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لئے کئی دریائے سندھ قربان ہیں لیکن ہم ایک پسماندہ اور غریب صوبہ ہیں’ہمارا بھی خیال رکھا جانا چاہیے”۔
جناب مہدی شاہ کے اس مئوقف کو ذہن میں رکھیں تو اب کالاباغ ڈیم کے حوالے سے صوبہ سندھ’ صوبہ خیبرپختونخواہ ‘صوبہ بلوچستان اور صوبہ پنجاب کے ساتھ ساتھ صوبہ گلگت بلتستان بھی باقاعدہ ”اسٹیک ہولڈر” بن گیا ہے۔گلگت بلتستان کی ایک معزز اور معتبر خاتون رہنما محترمہ فوزیہ نے دریائے سندھ کے حوالے سے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر رکھی ہے۔برسوں بیت گئے لیکن ایک سماعت کے بعد دوسری سماعت کا انتظار ہے۔ وہ کالاباغ ڈیم کی شدید حامی ہیں۔ اور اسی حوالے سے انہوں نے یہ رٹ دائر رکر رکھی ہے۔ وہ مقام جہاں سے دریا شروع ہوتا ہے زیادہ حقدار ہے یا جہاں سمندر برد ہوتا ہے وہ جگہ؟ اس کا فیصلہ آنے والا وقت اور حالات کریں گے۔بہرحال ایک بات طے ہے کہ پانی خدا کی نعمت ہے اور اسے ضائع کرنے کی بجائے اس کی ایک بوند بوند سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انسانی فائدے کی اس نعمت خداوندی کو ہٹ دھرمی اور تعصبات کے ذریعے ضائع کرنا قطعاً دور اندیشی نہیں بلکہ ناشکری ہے۔قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے’
”اور ہم نے پانی کے ذریعے ہرچیز کو زندگی عطا کی”۔ہمیں بھی اپنے پانیوں کو موت کی بجائے زندگی کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔