Dec
12
|
Click here to View Printed Statement
ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے کلین سویپ کیا ہے ۔عموماً ووٹرز ان انتخابات سے دور رہتے ہیں کیونکہ منتخب ہونے والے کا عرصہ اقتدار ایک سال یا چند ماہ کا ہوتا ہے’جیتنے والے کو بھی چند ہزار ووٹ پڑتے ہیں اور ہارنے والا بھی کچھ زیادہ دل گرفتہ نہیں ہوتا۔ لیکن دسمبر کے ضمنی انتخابات میں جیتنے اور ہارنے والے دونوںجنرل الیکشنز جیسے انتخابی معرکے سے دوچار ہوئے۔ انتخابی حلقوں کے اندر جوش و خروش بھی بھرپورتھا۔گویا فریقین نے پورا پورا زور لگایا اور ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک پہنچانے کے تمام تر جتن بھی کئے۔مسلم لیگ(ن) کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے والی (ق) لیگ اور پی پی پی کو یقیناً اپنے ووٹ بینک کے دیوالیہ ہونے کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔اب وہ کس طرح اس ووٹ بینک کو ووٹوں سے بھرتے ہیں اس کے لئے ان کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔پی پی پی کا خیال ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر وہ اپنے کارکنوں کو جذباتی حوالے سے متحرک کرلے گی اور جب بلاول بھٹو زرداری ملکی سیاست میں حصہ لینے کا باقاعدہ اعلان کریں گے تو جناب زرداری سے نالاں نظریاتی گروپ بی بی شہید کے لخت جگر سے بغلگیر ہو کر روئے گا اور یوں پارٹی کا وقتی انتشار کل وقتی اتحاد ویگانگت میں بدل جائے گا۔ہوسکتا ہے کہ پی پی پی کی یہ سیاسی چال کارگر ثابت ہو۔اگر بلاول بھٹو زرداری کسی ضمنی الیکشن میں جیت کر قومی اسمبلی میں آتے ہیں اور چار چھ ماہ کی نیٹ پریکٹس کرتے ہیں تو یہ ان کے لئے بہتر آغاز ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پبلک کنزپشن کے لئے جناب بلاول بھٹو کے پوسٹرز پر ان کا مختصر نام ”بلاول بھٹو” ہی لکھا جائے اور لفظ زرداری سے وابستہ اکتاہٹوں سے چھٹکارا پانے کی راہ نکل آئے۔بہرحال آئندہ انتخابات میں کسی غیر متوقع شکست سے بچنے کے لئے پی پی پی کے میڈیا مینجرز اور امیج بلڈرز ابھی سے پلاننگ کرچکے ہیں اور اس پلاننگ کی حتمی منظوری جناب زرداری ہی دیں گے۔وہ قصر صدارت میں رہتے ہوئے کوئی نہ کوئی ”چمتکار” کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جہاں تک مسلم لیگ (ق) کی کارکردگی کا تعلق ہے تو یہ پی پی پی کی کارکردگی سے جڑی ہوئی ہے۔موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ جناب پرویز الٰہی ڈپٹی پرائم منسٹر ہوتے ہوئے اپنے گھر سے بھی جیت نہیں پائے۔ شہبازشریف حکومت پر کرپشن کے متواتر الزامات کے باوجود وہ مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کے دلوں میں شکوک پیدا نہیں کرپائے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ شہباز شریف کا گراف اور ہیڈ برجوں کی طرح بلند تر ہورہا ہے اور (ق) لیگ انڈر پاس میں کہیں گم ہوگئی ہے۔چوہدی پرویز الٰہی مونس الٰہی کو بھی لانچ نہیں کرسکے حالانکہ بلاول کے ساتھ ساتھ مونس الٰہی کو بھی اچھا آغاز مل سکتا ہے۔تحریک انصاف نے اپنے ٹکٹ پر کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔لیکن قومی اسمبلی کے تین چار امیدوار تحریک انصاف کے رہنمائوں کے قریبی عزیز اور بھائی بند تھے۔عمران خان کے پوٹریٹ کے سائے میں کھڑے ہو کر ان امیدواروں نے خان صاحب کے نظریے کو آگے بڑھانے کے عہد کئے تھے اور الیکشن جیتنے کے لئے روپیہ پانی کی طرح بہایا۔افسوس کہ تحریک انصاف کے یہ حمایت یافتگان بری طرح ہارے۔ تحریک انصاف کے دماغوں کا تجزیہ یہ کہ ضمنی الیکشن سے ثابت ہوا کہ تحریک انصاف نے پی پی پی اور (ق) لیگ کا صفایا کردیا ہے اور آئندہ کے جنرل الیکشنز میں مقابلہ صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) سے ہوگا۔عمران خان کو ”کپتان وزیراعظم بن کر رہے گا” کے سپنے دکھانے والے دانشور اب طرح طرح کی توجیہات تراشنے میں مصروف ہیں۔لیکن سچ یہی ہے کہ مقابلہ جنرل پرویز مشرف سے مستفید ہونے والوں اور اس کا غضب سہنے والوں کے درمیان ہوگا۔عمران خان آج بھی جنرل پرویز مشرف کی ”گڈبک” میں ہیں اور عمران خان کو جنرل پرویز مشرف کے عہد میں ہر طرح کا ” فری ہینڈ” دیا گیا تھا۔(ن) لیگ کے رہنمامیاں محمد نوازشریف نے پی پی پی کو پانچ برس پورے کرنے دیئے اور اس طرح اس حکومت کو عوام کی نگاہوں میں کرپٹ اور نااہل ثابت ہونے کا خوب وقت دیا گیا۔ یہ صبر کی سیاست کہلاتی ہے۔ پی پی پی کو اب کی بار سیاسی طور پر شہید ہونے کاموقع نہیں مل سکا۔ عدلیہ سے محاذ آرائی کے دنوں میں امکانات تھے کہ جناب زرداری بھی عدلیہ کے ہاتھوں”شہید” ہوجاتے لیکن کبھی آرمی چیف’ کبھی نوازشریف آگے بڑھے اور معاملے کو رفع دفع کروا دیا۔جناب زرداری اس چال کو بھانپ نہیں سکے اور ”پانچ سال پورے کرنے ”اور ”جمہوریت بہترین انتقام” کا فلسفہ بگھارنے کے بعد اب عوامی بیزاری اور غصہ کے پہاڑ کے نیچے آنے والے ہیں۔پنجاب کو سنبھالنے کے لئے انہوں نے جناب منظور وٹو کو میدان میں اتارا ہے لیکن وہ ہر میدان میں ہارتے دکھائی دے رہے ہیں۔پی پی پی کے کارکن انتظار کرتے ہیں کہ کب منظور وٹو کا کوئی استقبالی جلسہ ہو اور وہ گلے میں روٹیوں کے ہار ڈال کر جلسے کا انتظام درہم برہم کردیں۔سندھ میں جناب خورشید شاہ معاملات سنبھالنے میں سرگرم ہیں۔ایم۔کیو۔ایم ابھی پی پی پی کے ساتھ اکٹھی ہے۔لیکن نئے بلدیاتی نظام کے خوف نے سندھی قوم پرستوں کو پی پی پی کے لئے نیا خطرہ بنا دیا ہے۔میاں نوازشریف نے کالاباغ ڈیم پر قوم پرستوں کے موقف کی تائید کرکے سندھ کی سیاست میں جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔خیبرپختونخواہ میں اے۔این۔پی پر کرپشن کے اتنے الزامات ہیں کہ وہ انتخابی مہم میں شائد انہی الزامات کی صفائی پیش کرتی نظر آتی ہے۔میاں نوازشریف کی باری ہے۔امکانات ہیں کہ میاں صاحب ایک بار پھر وزیراعظم ہائوس میں نہاری اور پائے سے لطف اندوز ہوں گے۔ ان کے برسراقتدار آنے سے عوام کو کیا ملے گا؟ راقم پیشین گوئی کرنے سے قاصر ہے۔اگر مالشیوں سے نجات پائی تو شائد میاں صاحب اقتدار میں اگر 1999ء والے ”بلنڈرز” کرنے سے بچے رہیں۔