Dec
20
|
Click here to View Printed Statement
حاجیوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے آل سعود ہمہ تن مصروف عمل رہتی ہے ۔بیت اللہ اور مسجد نبویۖ کی توسیع کا عمل جاری رہتاہے۔طواف کعبہ کے لئے آسانیاں فراہم کی جارہی ہیں۔ سعودی عرب کے حکمران یوں تو بادشاہ ہیں لیکن امت مسلمہ کے لئے ان کا مقام اور احترام اس قدر بلند وبالا ہے کہ ہم انہیںخادمین حرمین شریف کے لقب سے پکارتے ہیں۔ ان کے اس ارفع مقام کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ کعبة اللہ اورمسجد نبویۖ کی خدمت پر مامور رہتے ہیں۔ہم دعا گو ہیں کہ اللہ آل سعود کی حکمرانی کو دوام بخشے اور جمہوریت کے نام پر ان کے خلاف آئے روز ہونے والی سازشوں کوناکام فرمائے۔ مسلم دنیا میں واحد اسلامی مملکت ہے جس کو ہم فلاحی اسلامی ریاست کہہ سکتے ہیں۔ خدا جانے نمونے کی اس ماڈل ویلفیئر اسٹیٹ کومظاہروں کے ذریعے غیر مستحکم کرنے والے خفیہ ہاتھ کیا چاہتے ہیں۔
اس سال حج کی سعادت نصیب ہوئی۔میری اہلیہ بھی اس عظیم دینی فریضہ کی ادائیگی کے لئے ہمراہ تھیں۔ دوست احباب بھی گروپ میں شامل تھے۔دوران طواف’روضہ رسولۖ پر حاضری اور مسجد نبوی میں نوافل ادا کرتے وقت دلی کیفیات کا تذکرہ یہاں مقصود نہیں۔ عمومی تاثرات اورمشاہدات تک ہی خود کومحدود رکھوں گا۔ اس سے قبل کہ میں سعودی حکام کی طرف سے کئے جانے والے حج انتظامات کے حوالے سے گذارشات کروں سب سے پہلے اپنے پاکستانی حاجی بھائیوں سے دست بستہ عرض ہے کہ حج جیسی عبادت کی روح کو ضرور سمجھیں ۔ اللہ کا حکم ہے کہ ہر صاحب استطاعت بیت اللہ کا حج کرے۔ رسول پاکۖ کی احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ زندگی میں ہر صاحب استطاعت پر کم از کم ایک بار حج فرض ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حج فرض ہے فیشن نہیںہے۔ یہ صحیح ہے کہ کسی مسلمان پر ہر سال حج کرنے پر بھی کوئی پابندی یا ناپسندیدگی نہیں ہے۔بلکہ ہوسکتا ہے کہ بعض مذہبی حلقوں کے نزدیک ایک سے زیادہ حج کرنے کی بہت فضلیت بھی ہو۔ اسلام کے مجموعی نظام حیات پر نظر ڈالیں تو بعض سماجی فرائض ایسے ہیں کہ اگر انہیں پورا کیا جائے تو حج سے زیادہ یا حج کے برابر ہی ثواب ملتا ہے۔ میری گزارش ہے کہ ایک بار حج کرنے ولے صاحب دوسرے حج سے پہلے اپنے دیگر فرائض کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ پاکستان میں ہمارے اردگرد لوگوںکے ایسے ہجوم ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی تک میسر نہیں ہے۔ دو اڑھائی لاکھ کی تعداد میں ہر سال حج کرتے ہیں اور میرا اندازہ ہے کہ کل حاجیوں کی تعداد میں کم از کم پندرہ فیصد ایسے الحاج ہوتے ہیں جن میں سے کوئی پانچواں اور کوئی ساتواں حج فرما رہا ہوتاہے۔میری گزارش ہے کہ ہمیں قرآن کے احکامات اور پیغمبر اسلام کے اسوہ کی روشنی میں اپنے ہمسایوں’ عزیزوں ‘مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مالی مشکلات کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور اگر دوسرے حج کے اخراجات ان مجبور اور گرے ہوئے مسلمانوں کو معاشی طور پراٹھانے میں خرچ ہوجائیں تو روز محشر رسولۖ اپنی رحمت اور محبت کی چادر آپ پر تان لیں گے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہاں اکثر پاکستانی حاجیوں کے روز و شب کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ تاثر بھی ملا کہ ناجائز طریقے استعمال کرنے میں باقی قوموں سے ہم آگے ہیں۔خدا کرے یہ جھوٹ ہو لیکن ایسے رویے سامنے آئے کہ شرمندگی کے سوا چارہ نہ تھا۔دھکم پیل’مقدس مقامات کے قریب پہنچنے کے لئے عورتوں تک کا خیال نہ رکھنا’شوروغل خیموں میں دوسروں کی جگہ پر قبضہ کر لینا اورعجلت یہ ایسے معاملات ہیں جن کو دیکھ اور سن کر اپنے قومی اخلاق پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔مناسک حج پر بھی اختلاف ہوتے دیکھا ہے۔اچھے خاصے پڑھے لکھے اور صاحبان علم و دانش لوگ محض اپنے مسلکی تعصب کی بنیاد پر امامت کے جھگڑوں اور نمازوں کے اوقات اور مقامات پر تنازعہ میں الجھے رہتے ہیں۔ یہ دل دکھانے والی صورتحال ہے۔اگر ان سے کہا جائے کہ جناب آپ عالم دین ہیں۔ آپ کی باتیںبھی ٹھیک ہونگی لیکن یہاں تو ہم امت واحدہ کا تصور پیش کرنے حاضر ہوئے ہیں۔یہاں ہم صرف اور صرف سیرت رسولۖ تک خود کو محدود رکھیں اور مشترکات کو آگے بڑھائیں اور اس احسن عمل پر تنقید نہ کریں جس پر خود رسولۖ اللہ نے عمل فرمایا تو وہ فقہی حجتیں تراشتے اور گروپ کے اندر گروپ بنا کرکھڑے ہوجاتے ہیں۔حج آپریٹرز کی شکایت تو اب وقت کا ضیاع ہی دکھائی دیتی ہیں۔حج کے تمام ادارے اور ان کے حوالے سے رشوت اور سفارش کی ایسی داستانیں ہم پاکستانیوں کے دامن سے جڑی ہیں کہ کہاں کہاں صفائی دیں اور کس کس کے آگے وضاحت کریں۔لیکن ان آپریٹرز کو خدا کا خوف ہے نہ کسی قانون کا ڈر۔سہولتوں کے سنہرے سپنے دکھا کر کس طرح بے یارومددگار چھوڑتے ہیں۔عورتوں کو روتے دیکھا ہے۔خدارا اب تو باز آجائیں۔حاجیوں کو زچ کرنے کے لئے پی آئی اے ہی کافی ہے۔کس کس بے تدبیری کا ذکر کروں۔شیطان کو رجم کرتے وقت غیر ضروری جلد بازی کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ وہ شیطان کی بجائے اپنے ہی مومن بھائیوں پر سنگ باری کر رہے ہوتے ہیں۔ دھکم پیل سے کتنے ہی حاجی پائوں تلے آکر کچلے جاتے ہیں۔ تھوڑاصبر اور نظم و ضبط مناسک حج کی ادائیگی کو انتہائی آسان اور باوقار بناسکتا ہے۔ ہمارے گروپ کاروان زین کے انچارج جناب مقصود بھٹی اور ہمارے معلم پروفیسرحسین صدیق بدر قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتے رہے۔رہنمائی کا یہ فریضہ ہر گروپ میں ادا ہونا چاہے۔ سعودی حکومت نے جدید طرز کی ٹرین سروس کا آغاز کیا ہے یہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کا تیز ترین ذریعہ ہے لیکن اس کا انتظام انتہائی نااہل اور بدتہذیب کارکنوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔انتظامیہ اپنی بدتدبیروں اور اکھڑپن کی وجہ سے لوگوں کے دل دکھاتی اور بددعائیں سمیٹتی ہے۔ہمارے سامنے منا سے حاجی اس ٹرین میں سوار ہورہے تھے۔ایک عورت کا ایک پائوں اندر اور دوسراباہرٹرین کا باہری داخلی دروازہ بند کردیا گیا۔ وہ بچاری منت کر رہی تھی۔ہم ”بابو” کو کہہ رہے ہیں کہ بھائی یہ گروپ سے بچھڑجائے گی لیکن شورطے(سپاہی) نے اس عورت کو سخت الفاظ کہہ کر نیچے دھکا دے دیا۔کتنے ہی حاجی اپنے گروپ سے بچھڑ کر گم ہوجاتے ہیں اور پھر کوئی ایسا مرکزی ڈیسک نہیں جہاں جا کر وہ اپنی بپتاسناسکیں۔ایک آدھ کوئی ”چوکی” قائم بھی ہے تو اس پر سوائے عربی زبان کے اور کوئی ترجمان نہیں بیٹھا ہوا۔ ایک حشر برپا ہوتا ہے اور سپاہی اس سب سے بے نیاز۔مخیرادارے اور خود سعودی لوگ حج کے موقع پر خوب خیرات کرتے ہیں۔کھانا بانٹا جاتا ہے اور یقین کیجئے وہاں کھانا لینے والے یوں جھپٹے ہیں جیسے ہمارے ہاں سیلاب زدگان امدادی قافلوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔حکومت چاہے تو اس کو ایک مہذب صورت دے سکتی ہے اگر داتا دربار پر لنگر لینے والے لوگ قطاروں میں لگ سکتے ہیں تو آخر مکہ مکرمہ میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔حج کے دنوں میں سعودی دکاندار اور ٹرانسپورٹرز لوٹنے کی نفسیات میں مبتلا ہوتے ہیں۔قیمتوں کا تعین اور کرائے نامے مختلف زبانوں میں چسپاں کئے جانے چاہیں ۔حاجیوں کی تعلیم وتربیت کے لئے گو کہ پاکستان کے اندر حاجی کیمپ لگایا جاتا ہے اور وہاں جانے والے حاجیوں کو مناسک حج کی ادائیگی کے طریقے’عبادات اور دعائیں سکھائی جاتی ہیں۔لیکن اصل مسئلہ حج جیسی عبادت کی روح سے متعارف کروانا ہوتا ہے۔یہاں تفصیل کا موقع محل نہیں لیکن فلسفہ حج کو بیان کرتے ہوئے تمام مفسرین کے نزدیک حج کی مثال ایک جنگ کی سی ہے۔ حج کا لباس بھی ایک مختصر سا جنگی لباس ہوتا ہے۔ہم حجرہ اسود یعنی اللہ کے دائیں ہاتھ کو چوم کر اس کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ کر اللہ کی بڑائی کا ذکر کرتے اور اللہ سے کئے گئے عہد کو پورا کرنے کا اعادہ کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں”اللہ نے مومنوں سے ان کے جان و مال کے بدلے جنت کا سودا کرلیا”کعبہ کے گرد چکر لگانا صفہ و مروہ کے گرد پھیرے لگانا اور منیٰ کی طرف کوچ کرنا گویا کہ کمانڈر کے حکم پر فوج نقل و حرکت کر رہی ہے اور پھر عرفات کے میدان میں پڑائو۔ اگر حج کی روح کو انسان اپنے قلب پر اتار لے تو پھر اس کے اندر خود بخود وہ جذبہ پیدا ہوجاتا ہے جس کے تحت دوسرے حجاج کی عزت و توقیر بھی دل میں بیٹھ جاتی۔دوسروں کے لئے وقت اور باری کی قربانی بھی دی جاسکتی ہے۔ پھر منیٰ میں جگہوںپر قبضہ کرنے ‘ گندی اور غلاظت پھیلانے ‘ بخل اور کنجوسی تکبر اور عدم برداشت جیسی منفی سوچ سے بچاجاسکتا ہے۔ اگرسعودی حکومت چاہے تو حج پر گئے لوگوں کیلئے مختصر سے تربیتی کورسز شروع کروا سکتی ہے ۔ سب سے بڑی دقت مترجمین کی عدم موجودگی کے سبب پیدا ہوتی ہے۔گم شدگی کی صورت میں کوئی سہولت نہیں جہاں جا کر اپنی بپتابیاں کی جاسکے۔ میڈیکل کی سہولتیں تو ہوتی ہیں لیکن انتہائی کم اور وہاں بھی ڈاکٹر صاحبان صرف عربی زبان جانتے ہیں۔ اور بدتمیزی اور تکبر ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا دیکھا گیا۔ مریض کی بات مکمل سنے بغیر نسخہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا تھا گویابھیک دی جارہی ہو۔اب ایک پنجابی بولنے والے مریض کو اپنی بات سمجھانے کے لئے بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ انتہائی تکلیف دہ پہلو یہ کہ سعودی دکانداروں کے عربی بولنے کے لئے ریٹ الگ اور غیرعربوں کے لئے وہی ریٹ چار گنا بڑھ جاتے ہیں۔گویا عرب و عجم کی تفریق حج کے موقع پر بھی برقرار رہتی ہے۔خصوصاً سعودی ٹرانسپورٹرز غیر عربی حجاج کو خوب لوٹتے ہیں۔سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے ریڑھی بان جو معذور خواتین و حضرات کو بھاری رقم کے عوض طواف کروا رہے ہوتے ہیں’ اس قدر منہ زور ہوتے ہیں کہ وہ راہ چلتے حجاج کو ٹکریں مار کر زخمی کردیتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ متعلقہ سعودی ادارے میری ان گذارشات کو حج انتظامات کی بہتری کے لئے مثبت تجاویز جا ن کر عملی جامہ پہنانے کی کوشش فرمائیں گے۔