Dec
21
|
Click here to View Printed Statement
یہ بات کم و بیش اب ہر پاکستانی کی زبان پر ہے کہ یہ ملک ٹوٹ جائے گا۔ گزشتہ چار ساڑھے چار برس میں یہ پروپیگنڈہ اب لوگوں کے اندر یقین بن کر اتر گیا ہے اور خواص اور عوام دونوں ہی اس سوچ کے حامی دکھائی دینے لگے ہیں کہ بلوچستان ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتا۔کہا جارہا ہے کہ بلوچستان میں ہم نے بہت ظلم ڈھائے ہیں۔بلوچ کبھی بھی کسی کے ماتحت نہیں رہے۔پنجاب دو نہیں تین حصوں میں تقسیم ہوگا۔پنجاب تقسیم ہوا تو کراچی سندھ سے الگ ہو کر اپنی آزادانہ حیثیت کا اعلان کردے گا۔ صوبہ خیبرپختونخواہ کے نام تبدیل کرنے سے ہزارہ وال اپنا تشخص کھو بیٹھے ہیں اور اب وہ اپنا صوبہ مانگ رہے ہیں اگر ہزارہ الگ ہوگیا تو پھر پختون بلوچستان کے پختون علاقوں کے ساتھ ملکر افغانستان کے ساتھ الحاق کر لیں گے۔ جس ملک میں روزانہ بارہ ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہو وہ مالی طور پر بہت جلد ڈیفالٹ کرجائے گا۔اگر الیکشن ہو بھی گئے تو ملکی معاملات ابتری کی طرف ہی بڑھتے رہیں گے
امیر لوگ بجلی اور گیس نہ ہونے کے سبب ترک وطن کر رہے ہیں۔ایک ہزار ٹیکسٹائل یونٹس ملائیشیا اور بنگلہ دیش منتقل ہوجانے سے ملک میں اب بیروزگاروں کی فوج رہ گئی ہے۔ اگر گلف کے ملکوں نے پاکستانی محنت کشوں کو ملک بدر کردیا تو زرمبادلہ کے 8ارب تین دنوں میں ختم ہوجائیں گے۔ بھارتی قیادتوںنے قیام پاکستان کے وقت پاکستان ٹوٹ جانے کی جو پیش گوئیاں کی تھیں وہ سب صحیح ہوتی جارہی ہیں۔ دراصل پاکستان کے بنانے کا فیصلہ ہی غلط تھا۔ پاکستان اب اسلامی جمہوریہ کے طور پر بھی ناقابل عمل ہوچکا ہے۔ بھارت کے خلاف دشمنی جب تک ختم نہیں ہوتی تب تک فو موجود رہے گی۔ اور جب تک اس غریب ملک میں اتنی بڑی فوج رہے گی ملک کبھی ترقی نہیں کرپائے گا۔طالبان کسی وقت بھی ہمارے ایٹم بم چرا کر اس پورے خطے کو ایٹمی جنگ میں جھونک دیں گے۔ اور اس طرح کے ہزاروں مضروضے’ فلسفے اور دلائل پاکستانی قوم کے ذہنوں میں ٹھونسے جارہے ہیں اور سچ یہ ہے کہ اب ایسی دلیلیں اور ”حقائق” سن کر آئی محبت وطن شخص طیش میں نہیں آتا۔ مایوسی کا یہ عالم کہ بڑے بڑے سمجھ دار لوگ اس پروپیگنڈہ کے سامنے دفاعی پوزیشن میں آگئے ہیں اور مائیں بہنیں ایسی شرانگیز خبریں سن کر انتہائی بے حسی کے عالم میں وطن کی حفاظت کی دعائیں مانگتی ہیں۔قارئین مجھے اس کالم میں پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے اور افواہوں کا توڑ نہیں کرنا کیونکہ پروپیگنڈا مراکز اس قدر باوسیلہ اور طاقتور ہیں کہ میرے چند حروف شائد کہیں جگہ بھی نہ پاسکیں۔ مسلسل غوروغوص اور لوگوں اصحاب رائے سے طویل نشستوں کے بعد میں اس حتمی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ملک کو درپیش تمام چیلنجز(حقیقی اور مصنوعی) کا ذمہ دار ہمارا حکمران طبقہ ہے۔ کم از کم پوری قوم اس گناہ میں ہرگز ہرگز شامل نہیں ہے۔ اس لئے جب لوگ اس ملک اور قوم کو برا بھلا کہتے ہیں تو ناظرین’ حاضرین اور قارئین سے میری گزارش ہے کہ وہ خود کو موردالزام نہ ٹھہرایا کریں۔پاکستان کے لوگ آج بھی اتنے ہی اچھے لوگ ہیں جتنے بھارت کے ہیں’ بنگلہ دیش کے ہیں’ چائینا کے ہیں یا خود امریکہ’ جاپان اور ان کے ہیں۔آپ جائیں گھر میں بیٹھیں انٹرنیٹ پر تمام ممالک کے اندر پائے جانے والے جرائم کی شرح اور نوعیت کو دیکھ لیں اور اپنے سماج کے ساتھ موازنہ کر لیں یقین کریں آپ ان سے خود کو بہت بہتر پائیں گے۔ ہاں اگر حکمران طبقہ اور لیڈر شپ کا موازنہ کریں تو یقیناً آپ مایوس ہوں گے کہ ہماری ہر سطح کی قیادتیں بدترین ہیں۔لہٰذا یقین کرلیں کہ ہم آج بھی بہترین قوم ہیں۔پاکستان کے وسائل’اس کے موسم’ اس کے جغرافیہ اور تاریخ کا بھی دیگر ملکوں سے موزانہ فرمالیں اور اگر آپ کی آنکھیں پر پراپیگنڈا کی پٹی نہیں بندھی ہوئی تو میں پورے اعتماد سے کہتا ہوں کہ یہ ملک کم از کم دنیا سے نہ سہی اس خطے سے زیادہ خوبصورت اور سمارٹ ہے۔ لیکن آپ اپنی کافتوں’ محرومیوں اور مایوسیوں کے پیچھے ایک ہی ہاتھ کارفرما پائیں گے اور وہ ہاتھ ہے ہمارے طبقہ اشرافیہ۔ یہ طبقہ ہر جماعت’ ہرگروہ میں اس طرح غالب ہے کہ ان سے جان چھرانا وقت کی اولین ضرورت ہے۔قیادتیں چار طرح کی ہوسکتی ہیں۔ایماندار اور اہل’ ایماندار لیکن نااہل’ اہل لیکن بددیانت اور چوتھے نااہل اور بددیانت۔ترقی یافتہ اور ہمارے خطے کے دیگر ممالک میں عمومی طور پر جو قیادتیں آتی ہی ہیں وہ اہل بھی تھیں اور ایماندار بھی۔ہمارے ہاں غالب عرصہ ان لیڈروں نے حکمرانی کی ہے اور کر رہے ہیں جو نااہل بھی تھے اور بددیانت بھی۔ایسے حالات ملک اور قومیں آگے نہیں بڑھیں۔ترقی نہیں بلکہ تنزل کی طرف لڑھکتی ہیں۔اہلیت کا معیار انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ طے ہوا ہے۔ لوگوں نے ایمانداری وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ لی ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ تدریجی عمل بھی رکا ہوا ہے۔ لیکن ایک بہت ہی بڑی طاقت پاکستانی قوم کو میسر آئی ہے اور یہ طاقت ووٹ کی طاقت ہے جسے کبھی کبھار ہمیں آزمانے کا موقع میسر آتا ہے۔ اگر ہم طے کر لیں کہ آئندہ ہم صرف اسی امیدوار کو ووٹ دیں گے جو اہل بھی ہو اور ایماندار بھی تو پھر قیادت کے فقدان پر قابو پانے کی راہ نکل سکے گی۔ہم سب مسلمان ہیں اور قرآن نے ہم سب کی رہنمائی کی۔ ہر انسان کی رہنمائی کی۔ قیادت منتخب کرتے وقت قیادت کی اہلیت کے اسلامی اور قرآنی تقاضے جب تک پورے نہ کریں گے یہ فقدان ختم نہ ہوگا۔