Jan 12

Click here to View Printed Statement

کب سوچا تھا کپتان اور اس کی ٹیم نے۔ابھی کھیل شروع ہی نہیں ہوا تھا کہ ٹیم کی نامزدگی ہی مشکوک ہوگئی۔ مقابلہ میں حصہ لینے والی متوقع ٹیموںمیں کپتان کا نام تیسرا تھا لیکن حالات کی ستم ظریفی کہ قادری فیکٹر اچانک ظہور پذیر ہوا اور ”سپورٹس بورڈ” نے کپتان کے نام کی تختی ہٹا کر وہاں قادری کے نام کا بورڈ لگا دیا ہے۔ ملکی سیاست میں تیسری متوقع قوت اب عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نہیں بلکہ ڈاکٹر طاہر القادری اور تحریک منہاج القرآن ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب قادری کو اصل میں عمران خان کا راستہ روکنے کے لئے اتارا گیا ہے۔ ورنہ جہاں تک اصلاحات اور احتساب کے حوالے سے مطالبات اور خیالات کا تعلق ہے تو عمران خان گزشتہ اٹھارہ برس سے یہی رونا رو رہے ہیں۔ وہ بڑے بڑے جلسے بھی کرچکے ہیں اور لانگ مارچ بھی کرچکے ہیں۔ جس تواتر اور توانائی  کے ساتھ جناب عمران خان نے سیاسی ٹھگوں’چوروں اور اس جعلی جمہوریت کے پردے چاک کئے ہیں ایسا مدلل اور دستاویزی قسم کا میٹریل ابھی تک جناب قادری کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔ لیکن ان کے لانگ مارچ اور ملفوف ایجنڈے کو جو پذیرائی مل رہی ہے وہ عمران کے نصیب میں نہیں لکھی گئی۔ اب تو خان صاحب کے سپوکس پرسن بھی جناب قادری کو انا ہزارے قرار دے رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ والے بھی بڑے ظالم لوگ ہوتے ہیں۔ جناب عمران خان جو کبھی مختلف صدا ہونے کے سبب فرنٹ پیج پر جگہ پاتے تھے اور کسی اینکر کا ان کی موجودگی کے بغیر کوئی پروگرام ہٹ نہیں ہوتا تھا’اب یہ حالت ہے کہ اخبار میں جناب عمران کا بیان تلاش کرنا پڑتا ہے جبکہ جناب قادری اور ان کی تحریک  کے عہدیداروں کی منتیں کرکے انہیں ٹاک شوز میں مدعو کیا جارہا ہے۔ اور عمران کی حالت یہ ہوچکی ہے’پھرتے ہیں میرخوار کوئی پوچھتا نہیں اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئیابھی تک یہ ایک سربستہ رات ہے کہ جناب قادری کو کس نے لانچ کیا ہے۔ اس میں ”فارن فیکٹر” کتنا ہے اور ”لوکل فیکٹر” کون کون سا ہے۔لیکن ایک بات طے ہوگئی کہ میاں محمد نوازشریف کا خیال باطل نکلا ہے۔ ان کے نزدیک یہ سارا میلا (ن) لیگ کی چادر چرانے کے لئے سجا ہے اور اس کے آرکیٹکچر جناب زرداری ہیں۔ لیکن دس اور گیارہ جنوری کو جس طرح زرداری ٹولے اور اتحادیوں کی دوڑیں لگیں’ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قادری کے پیچھے کم از کم زرداری نہیں ہیں۔ورنہ بڑے چوہدری صاحب کو الطاف بھائی کو منانے کے ٹاسک نہ دیا جاتا اور نہ ہی الطاف بھائی دس گھنٹے کے بعد 180 درجے کا سیاسی موڑ مڑتے۔ الطاف بھائی نے قلعہ گرائونڈ کے اندر گھنٹوں ناحق خطاب کرکے اپنی صحت کو گزند پہنچائی اور خواہ مخواہ قائداعظم کے بارے میں غیر ضروری انکشافات کرکے اپنا رعب اوردبدبہ کم کیا۔زمینی حقائق واقعتاً ایسے تلخ ہوتے ہیں کہ شہرت کی مٹھاس کو بھی پھیکا بنا دیتے ہیں۔ یوں ہی خیال آتا ہے کہ ایم کیو ایم کے تیز دماغوں کو زمینی حقائق پڑھنے میں اس قدر دقت کیوں پیش آتی ہے۔ وہ اچانک فیصلے کرتے اور پھر ”زمینی حقائق” کی روشنی میں اپنے کئے ہوئے فیصلے کو واپس بھی لے لیتے ہیں۔ لندن اور کراچی کے فاصلے گھٹیں تو شائد فیصلوں میں استحکام بھی آئے۔کراچی کا موسم مستقل سا رہتا ہے لیکن وہاں سے آنے والے فیصلوں میں استقلال کی کمی سی محسوس ہوتی ہے۔تحریک منہاج القرآن کے ترجمان جناب عمر ریاض عباسی کی صلاحیتوں سے پہلے بھی انکار نہیں تھا۔ہمارے دوست بھی ہیں’ صحافی ہیں اور آج کل ٹاک شوز میں چھائے ہوئے رہتے ہیں۔سچ یہ ہے کہ ان کے دلائل کے سامنے بڑے بڑے کہنہ مشق سیاسی تجزیہ کار بونے سے لگتے ہیں۔ ہم عباسی بھائی کے زبان و بیان کی مزید تیزی کی  دعا کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ کبھی ترشی پر نہیں اتریں گے کہ وہ ہم سب کے ہر دلعزیز ہیں۔

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply