Jan
23
|
Click here to View Printed Statement
جتنے منہ اُتنی باتیں۔سازشی نظریے بے شمار’ہوائی تجزیے ہزار ہا۔فلسفیانہ پہلوئوں پر بحث و تحمیص تھمنے کا نام نہیں لیتی۔دانشوروں کا ایک گروہ مصرکہ اس سارے ”ڈرامے ”کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔دوسرا گروہ بعض ہمسایہ اور دوست ممالک کو چھپا ہوا ہاتھ قرار دے رہا ہے۔ہر کوئی لانگ مارچ کی گتھی سلجھانے میں مصروف ہے لیکن بدنیتی کے سبب نہ ڈور سلجھی ہے
نہ سرا ہاتھ آیا ہے۔تحریک منہاج القرآن والے کیوں دبک کر بیٹھ گئے۔
جنہوںنے دھرنے کے دوران حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں وہ اب کیوں کھسیانے ہو کر آئیں بائیں شائیں کا نظارہ پیش کر رہے ہیں۔بغض معاویہ میںمبتلا دانشورشیخ الاسلام پر حملہ آور ہیں۔جنہوں نے ”حضور” کی شانِ قلندری میں زمین آسمان کے قلابے ملائے تھے وہ اب مذمت’ملامت اور مذاق کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیںدے رہے۔قادری صاحب اپنے طور پر اپنا دامن دھونے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔کیاان کے آئندہ کے ماہ وسال وضاحتیں گھڑنے اور اپنے فیصلے کو ”صلح حدیبیہ” قرار دلوانے میں گذر جائیں گے۔ نہیں وہ پھر آئیں گے’جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہوگرم رکھنے کا ہے اک بہانہکرائے کے قلم کار نے لکھا ”پسپائی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ہارے ہوئے جرنیل کے مقدر میں دنیا جہان کے طعنے ہوتے ہیں۔ہم نے بڑے بڑے ذہین و فطین لوگوں کو شکست کے بعد گوشہ نشینی اختیار کرتے دیکھا ہے اورجو بہت غیرت مند تھے انہوںنے خودکشی کرکے لوگوں کے منہ بند کردیئے۔ڈاکٹر طاہر القادری کا معاملہ کیا ہوگا اس کا فیصلہ ان کے اندر کے سچ اور جھوٹ پر منحصر ہوگا”۔ کاش کہ ایسے قلمکاروںکو معلوم ہوتا کہ طاہر القادری ہارے نہیں بلکہ مکمل طور پر فتح مند رہے۔قوم کو جو باتیں یاد رہ جائیں گی وہ ان کی اسلام آباد آمد کا منظر ہوگا۔پانچ روز تک ٹی وی سکرینوں پر ان کے بولے ہوئے لفظ’اصطلاحات اور توجہیات ذہنوں میں رقم ہوجائیں گی۔ہماری نئی نسل کو آئین کی شقیں 62اور 63زبانی یاد ہوگئی ہیں۔انتخابی نظام کی خرابیاں ‘ امیدواروں کی سکروٹنی کا طریقہ کار اور اصلی جمہوریت کے خدوخال بھی ازبر ہوگئے ہیں۔چور اُچکے دھوکہ دینا چاہیں گے مگر کامیاب نہ ہوسکیں گے۔طاہر القادری کے مطالبات’مطالبات کے حق میںدلائل’حق کے حصول کیلئے دھرنا اور دھرنے کی کامیابی کے لئے کنٹینریہ سب پہلو ہماری سیاسی تاریخ میںحوالے کا درجہ پاگئے ہیں۔ اب جب الیکشن مہم زوروں پر ہوگی اور بڑے بڑے عوامی جلسوں کا انعقاد ہوگا توہر کسی کو جناب قادری کا بم پروف کنٹینریاد آئے گا۔ ہماری عوامی سیاست میں کنٹینر کو مستقل حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ بلکہ یہ ایک ایسا ”ٹرینڈ” سیٹ ہوا ہے کہ دنیا بھر کی بلندقامت سیاسی شخصیات خود کودہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسے ہی کنٹینرز بنوا کر استعمال کریں گی اور آ ج کے سیاسی رہنمائوں پر جناب قادری کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے طالبان جیسی مہلک قوت کا بھی توڑ نکال دیا ہے۔ اب آپ شوق سے لاکھوں کا مجمع اکٹھاکریں اور ایک دو گھنٹے نہیں بلکہ ہزاروں میل کا فاصلہ محفوظ طور پر کریں اور ہفتوں خطاب جاری رکھیں۔اللہ تعالیٰ اسی طرح انسانوں کی رہنمائی فرماتے ہیں۔مجھے اس نشست میں کوئی تجزیہ پیش نہیں کرنا۔مجھے تواسلام آباد کے ڈی چوک میں خون جما دینے والی سردی اور بارش میں کھڑے ان ہزاروں انسانوں کی دلی اور دماغی کیفیت کا تجزیہ کرنا ہے۔”ہر انسان کا کوئی نہ کوئی اثاثہ ہوتا ہے۔ہمارے قائد ہمارا اثاثہ ہیں۔اثاثے کو بچانے کے لئے اپنی اور اپنے بچوں کی جان قربان کی جاسکتی ہے اور ہم اپنے ” قائد” کو بچانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیں گی”۔ میرے ذہن میں اس پاکدامن بی بی کے یہ الفاظ کچوکے لگا رہے ہیں جس نے ایک پہلو میں ڈنڈا تھاما ہوا تھا اور اس کے دوسرے پہلو میں چھتری کے نیچے شیرخوار بچہ نیم وا آنکھوں سے اپنی ماںکی باتیں سن رہا تھا۔ میرے لئے اس جواں سال ماں کا یہ جذبہ’حوصلہ اور یقین حوصلے کا بہت بڑا سبب ہے۔کیا واقعی آج کے اس دور میں ایک پڑھی لکھی عورت کسی ”قائد” کے لئے اس قدر وفا اور جفا دکھا سکتی ہے۔ اور یہ ایک واقعہ نہیں دھرنے کے اکثر شرکاء کی یہی ذہنی کیفیت تھی۔قادری روتے تھے تو وہ سب روتے تھے’ قادری نے کہا بیٹھ جائو سب بیٹھ گئے’ کہا کھڑے ہوجائو سب مستعد ہوگئے۔کسی فوجی کمانڈر کو ایسی اطاعت گذاری نصیب نہ ہوگی۔ طعنہ بازوں سے کہو وہ جناب قادری کے عقیدتمندوں جیسے چندجانثار پیدا کریں پھر چاند پر تھوکنے کا شوق فرمائیں!