Mar
12
|
Click here to View Printed Statement
”شوگر سے شوگر نہیں ہوتی۔انسانی جسم میں ایک خاص حد تک ہی شوگر جذب ہوسکتی ہے۔ اس قدرتی حد سے بڑھیں گے تو انسانی نظام ہضم خود بخودا کتاہٹ محسوس کرنے لگے گا۔ یہ محض ڈاکٹروں کا پراپیگنڈہ ہے کہ چینی کھانے سے شوگر کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔ اس بیماری کے اسباب کچھ اور ہیں لیکن عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے یہ سستاسا نسخہ گھڑلیا گیا ہے”۔
ملاقات شروع ہی ہوئی تھی کہ سکندر خان اپنے دبنگ لہجے میں شوگر انڈسٹری کو نقصان پہنچانے والے سرکاری اور غیر سرکاری اقدامات کا احاطہ کرنے لگے۔آل پاکستان شوگر ایسوسی ایشن کے سابق صدر اورخیبرپختونخواہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق چیئرمین سکندر خان معروف صنعت کار گھرانے کے چشم وچراغ ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے صنعت کاروں کے اندر حکمرانوں کے سامنے بات کرنے کا حوصلہ پیدا کیا ہے اور وہ قومی سطح کے متعدد فورموں پر صنعت کاروں کے مسائل اور پریشانیوں سے پالیسی ساز اداروں کے سربراہوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔
”ایک صنعت کار کے لئے بہت آسان ہے کہ وہ اپنے اثاثے سمیٹے اور باہر بھاگ جائے یا رقم بینک میں رکھ کر منافع کھائے۔ نہ لیبر کے جھنجھٹ نہ ایف بی آر اور دوسرے اداروں کی قہرمانیاں۔ اس ملک میں صنعت لگانا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ دنیا بھر میں ان لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو اپنا سرمایہ لگا کر روزگار کے لئے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں روزگار دینے والے صنعت کاروں کو گالی دی جاتی ہے۔ سرکاری ادارے چھوڑیں عام آدمی کے ذہن میں میڈیا نے ایسا تاثر پیدا کردیا ہے کہ گویا یہ صنعت کار چور ہیں اور دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل کو لوٹ رہے ہیں”۔
سکندر خان کا دل دکھا ہوا تھا وہ بار بار مجھ سے پوچھتے تھے’
”ڈاکٹر صاحب آپ بتائیں کہ صنعت کار کہاں جائیں ۔مجھ سے کہا گیا کہ ٹیکس سے بچنے کے لئے ”چائے پانی” کا بندوبست کرو۔ میں نے صاف انکار کردیا اور کہاکہ جو بھی جائز ٹیکس بنے گا جمع کرائوں گا آپ لوگوں کو کچھ نہیں دوں گا۔ مجھ پر سو گنا زیادہ ٹیکس لگادیا گیا۔میں نے کیس کیا’عدالت میں گیا’ عرصہ دراز ہواکیس لڑ رہا ہوں’ جھکا نہیں ہوں اور نہ ہی جھکوں گا۔ میں نے طے کیا کہ اسی ملک میں رہوں گا اور حق کی آواز بلند کرتا رہوںگا”
سکندر خان کے والد گوجرانوالہ کے پٹھان ہیں۔ یعنی پٹھان ہیں لیکن گوجرانوالہ میںرہے۔والدہ ایرانی نژاد ہیں۔فارسی مادری زبان ہے۔کراچی میں بچپن گذرا۔ خاندان کے ہارون فیملی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔فیض احمد فیض عبداللہ ہارون کے گھر آتے تو شعروسخن کی نشستیں جمتی تھیں۔ سکندر بھی ان محفلوںمیں تواتر کے ساتھ شریک ہوتے۔ خالصتاً انگریزی تعلیم میں پروان چڑھنے والے اس نوجوان کو فیض احمد فیض کا انداز ایسا بھایا کہ خود بھی مشق سخن شروع کردی۔ان کے پاس اپنے غیر مطبوعہ کلام کا ایک ذخیرہ جمع ہوگیا ہے۔فرقہ وارانہ دہشت گردی کے بطن سے جنم لینے والے اعصاب شکن احساسات نے سکندر کی سوچ اور بیان پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ خوشحالی اور خوش نصیبی کے باوجود صنعت کار سکندر کو ملکی صورتحال لہو رلاتی ہے۔ وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ اور اپنے اندر کے سکندر کو شعروں کی صورت میں قرطاس پر رقم کردیتے ہیں۔ ان کے کلام کی اکثر تلمیحات اور استعارے فیض احمدفیض سے مستعارلئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخواہ کے عظیم سیاسی خاندان کے وارث ہیں’لیکن عملی سیاست سے کوسوں دور ہیں۔انگریزی ‘فارسی’ اردو اور پشتو پر عبور حاصل ہے۔
”ڈاکٹر صاحب آپ اکانومی واچ کے پلیٹ فارم سے ملکی معیشت کی بہتری کے لئے جہاد کر رہے ہیں ۔آپ اس ملک کے صنعت کار کو بجلی’ گیس نہیں دے سکتے اعتماد ہی دلوا دیں۔ یہ بجلی بھی پیدا کریں گے’ بے رزوگاری ختم کریں گے اور معیشت کے پہیے کو پھر سے رواں دواں کریں گے”۔
سکندر خان انتہائی متحرک اور کامیاب شخص ہیں۔خدا نے انہیں جس قدر مالی کامیابیوں سے نوازا اسی قدر انہیں انسان پروری اور غریب پرسی کا حوصلہ بھی دیا ہے۔
جناح سپر اسلام آباد میں اپنے دفتر میں بیٹھے وہ اپنی زندگی کا خاکہ بیان کر رہے تھے۔ سورج کی شعائیں ان کے دمکتے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ انہوں نے ملازم کو آواز دی۔ ملازم دوڑا ہوا اندر آیا۔ سکندر خان نے انتہائی دھیمے لہجے میں اس بزرگ ملازم کو کہا” بابا جی ذرا کھڑکی بند کردیجئے”۔ انکساری سکندر خان کی شخصیت میں ایک نگینے کی ماننددمکتی ہے۔
”میرے نانا مجھے زبردستی بس میں سوار کردیتے تھے حالانکہ گاڑیوں کی کمی نہ تھی۔وہ صرف اس لئے کہ میں عام آدمی کے ساتھ سفر کے دوران لوگوں کی مشکلات کا ادراک کرسکوں”
اپنے دوست ملک اظہر اور بیگ راج کے ہمراہ سکندر خان کے دفتر سے باہر آئے ۔ہم تینوں کو ایک ہی تشویش تھی کہ اگر سکندر خان جیسے سچے اور محب وطن صنعت کاروں نے بھی تنگ آکر یہ ملک چھوڑ دیا تو ہماری معیشت کا کیا بنے گا؟