Mar
19
|
Click here to View Printed Statement
سیاسی پارٹیاں ابھی انہیں اپنے لئے کوئی خطرہ نہیں سمجھتیں۔ابھی حفظ مراتب اور وضع داری غالب ہے۔ڈاکٹر صاحب ہر محفل میں بڑی سیاسی پارٹیوں کے نظریاتی قلعوں پر اپنے فکری میزائل داغتے ہیں لیکن چونکہ نشانے خطا جارہے ہیں اور مسلمہ سیاسی قائدین کو ان پھلجھڑیوں سے کوئی خاص کوفت نہیں ہوتی اس لئے وہ ڈاکٹر صاحب کو بزرگی اور بڑائی کا فائدہ دے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں اس دن سے ڈرتا ہوں جب ڈاکٹر صاحب اپنی نوزائیدہ پارٹی کے کسی ٹکٹ ہولڈر کے جلسے میں جا کر پی پی پی’ ن لیگ’ ایم کیو ایم یا اے این پی کی قیادتوں کے خلاف بارود اگلیں گے اور جواب میں خدا جانے کتنے پتھر سہنے پڑ جائیں گے۔ تب تقدس کی چادر تار تار ہوجائے گی اور دنیا کہے گی کہ دیکھو پاکستانی سیاست دان محسن پاکستان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ بھارت نے اپنے ایٹمی سائنسدان کو صدارت کے منصب پر بٹھایا۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ایک باوردی حکمران نے عظیم ایٹمی سائنسدان کو جی بھر کر رسوا کیا۔ لیکن یہ تو حکمران طبقہ کے معاملات ہیں۔ڈاکٹر اے کیو خان کا مقام اور مرتبہ حکمرانوں کے نزدیک کم تر ہوسکتا ہے عوام الناس کے دلوں اور دماغوں میں اس شخص کا نہ قد کم ہوا اور نہ حیثیت گدلائی ہے۔ جب تک ڈاکٹر صاحب نے ”تحریک تحفظ پاکستان” کی داغ بیل نہیں ڈالی تھی وہ قوم کے نزدیک غیر متنازعہ اور بلامشروط طور پر ایک قومی ہیرو تھے۔ سیاست میں آنے کے بعد ان کے حصے میں تقسیم شدہ محبتیں ہوں گی۔ جس طرح عمران خان نے اپنے لئے مشروط محبت کی راہ منتخب کی ہے’اسی طرح جناب اے کیو خان کو بھی بٹوارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تیرے ووٹرز’ میرے ووٹرز کی جب تقسیم ہوگی تو پھر چاہنے والوں کے دلوں میں اکتاہٹ بھی ہوگی’ نفرت بھی جنم لے گی اور انتقام کے جذبات بھی ابھریں گے۔
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے قومی ہیروزکو کونسی کمی ہے جسے وہ سیاست کے ذریعے پورا کرنا چاہتے ہیں۔سیاست کے ذریعے اقتدار تک جایا جاتا ہے اور آج کل اہل اقتدار کو جس طرح چوک چوراہوں میں ذلیل کیا جاتا ہے جس طرح میڈیا ٹرائل ہوتا ہے اور سپریم کورٹ جس طرح دھلائی کرتی ہے’ کم از کم قومی ہیرو کو ایسے اقتدار پر دس بار لعنت بھیجنی چاہئے۔پاکستان میں کرنے کے لئے بڑے کام پڑے ہیں۔ آپ شروع کریں’حکومتیں’ عوام اور خواص سب آپ کے ایک اشارے پر کروڑوں اربوں روپے عطیات دیں گے۔آپ نے ایجوکیشن کے ادارے بنانے ہیں تو آپ کو روپے پیسے کی کمی نہیں رہے گی۔آپ کی لوگ عزت کریں گے کہ وہ آپ کی صلاحیتوںاور آپ کی نیک نیتی پر اعتماد کرتے ہیں۔
یہ سیاست بھی کیسا آسیب ہے کہ انسانی سوچ کو اپنے قبضہ میں لے کر ایسی بے راہ روی پر لگاتا ہے کہ مصلحین اصلاح اور معماران ملت تعمیر افراد کے کارخیر کو خیرباد کہہ کر اقتدار کے شارٹ کٹ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔جب سیاست کا طوفان ان صالحین کو اٹھا کر منہ کے بل گرا دیتا ہے تو پھر قوم تعلیم وتربیت کے وسیع منصوبوں سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوجاتی ہے۔
قوم کو عمران خان سے کتنی امیدیں تھیں۔ساٹھ فیصد سے زائد خاموش اکثریت عمران کو نجات دہندہ سمجھنے لگی تھی۔ان کا خیال تھا کہ عمران بڑی خاموشی کے ساتھ ایک خاموش انقلاب برپا کردیں گے۔لیکن اکسانے اور دھکا دینے والوں نے قوم سے ان کا قومی ہیرو چھین لیا اور آج وہی ہیرو خارزار سیاست میں آبلہ پابھاگ رہا ہے۔اصغر خان کے ساتھ کیا ہوا۔ ابرار الحق جسے صوفی گلوکار ہونے کا دعویٰ تھا’ وہ سیاست کا ایسا اسیر ہوا کہ توازن ہی کھو بیٹھا۔اگر پی پی پی یا ن لیگ دوبارہ جیتے تو ملک چھوڑ جائوں گا” کسی فنکار کی ذہنی پسماندگی کی انتہا ہے۔
ڈاکٹر اے کیو خان کو دھکا دینے والے چوہدری خورشید الزمان ہی ہیں۔تحریک تحفظ پاکستان کے تاسیسی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو ئی سیاسی پارٹی نہیں بنائیں گے اور نہ انتخابی سیاست کا حصہ بنیں گے بلکہ تمام سیاسی زعماء اور کارکنوں کو اصلاح کی طرف مائل کریں گے۔لیکن ”قدم بڑھائو قدیر خان۔ قوم تمہارے ساتھ ہے”۔ کا نعرہ لگانے والوں نے ایک ایٹمی سائنسدان کو سیاست دان بناڈالا۔
سیاست شجر منوعہ نہیں ہے۔لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر صاحب بصیرت رہنما سیاست کے ذریعے ہی قوم کی خدمت کرے۔ اگر جذبہ قوم کی خدمت ہی ہے تو اس حرزاں نصیب ملک کے لئے کرنے کو بہت سے کام ہیں۔ جس ملک میں ہر سال ہزاروں لاکھوں لوگ ہیپاٹائٹس سے ہی مرجاتے ہوں وہاں ڈاکٹر قدیر خان اسمبلی میں پہنچ کر کیا تیر ماریں گے۔ جس قوم کے اسی فیصد حصے کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو’ جہاں تباہیوں سے متاثر ہونے والے کروڑوں انسانوں کو آفتوں سے نپٹنے کی بنیادی سوجھ بوجھ تک نہ ہو وہاں ہمارے قومی ہیرو سیاست کے ہاتھوں زیروہو رہے ہیں۔اقتدار صرف اختیار کے لئے ہوتا ہے اور یقین جانیے کہ مولانا عبدالستار ایدھی کا اختیار بڑے بڑے سیاستدانوں سے کہیں زیادہ ہے کہ اختیار صرف قانون کی کتابوں میں تحریر پروٹوکول نہیں دلوں میں موجزن احترام سے پوٹھتا ہے۔
ڈاکٹر اے کیو خان نے پاکستان کو ایٹمی پاکستان بنا کر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ کاش کہ وہ ایک اور احسان اس قوم پر کریں اور سیاست کی وادیوں سے واپس لوٹ آئیں’ قوم کی اکثریت انہیں صرف اور صرف اپنا ہیرو دیکھنا چاہتی ہے۔