Apr
08
|
Click here to View Printed Statement
سابق طالب علم رہنما اور ضیاء الحق مرحوم کی آمریت کیخلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں قید اور تشدد سہنے والے شفاف سیاست کے ماتھے کا جھومر لیکن آج کی لوٹ مار کی سیاست میں مکمل طور پر ”نااہل” ہمارے دوست محترم ناصر مغل صاحب جب موجودہ حالات کی سنگینی سے اکتا جاتے ہیں توتڑپ کر پوچھتے ہیں”’مرتضیٰ بھائی نیک لوگ کب آئیں گے؟۔یہ وہ سوال ہے جو ہر سچے انسان اور کھرے پاکستانی کے ذہن میںکُلبلاتا رہتا ہے۔ اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پرہر دور میں کوشش کی گئی ہے۔روز اول سے صالح اور نیک سیرت لوگوں کی یہی خواہش رہی ہے کہ ان کے حاکم وہ لوگ ہوں جو ایمانداری اورصلاحیت کے معیار پر پوراتریں امین ہوں’ نوع انسانی سے محبت کریں اور عوام کی مشکلات بڑھانے کی بجائے کم کریں۔قرآن حکیم نے ایسی صالح قیادت کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا”’اور جب انہیں زمین پر اقتدار دیا جاتا ہے
تو وہ نماز قائم کرتے’ زکوٰة کا نظام رائج کرتے ‘نیکی کا حکم دیتے اور برائیوں سے منع کرتے ہیں”۔پاکستان میں افراد کی تربیت اور صالحین کی جماعت تیار کرنے کے لئے بڑی بڑی تحریکیں اٹھی ہیں۔لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ جماعت اسلامی جیسی منظم اور متحرک جماعتیں بھی برسوں سے صالحین کی مطلوبہ تعداد تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں ۔قرآن و سنت کی روشنی میں کردار سازی کی مہمات بھی بظاہر کامیاب نہ ہوسکیں اور پاکستان کے مسند اقتدار پر بیٹھنے والوں کی اکثریت نااہل رہی’ جو اہل دکھائی دیئے وہ ایماندار نہ تھے اور جو چند ایک اہلیت اور امانت کے قرآنی معیار پر پورا اترتے تھے ان کی آوازیں دب گئیں یا وہ بھی حرص و ہوس کے اسیر ہو کر دھن دولت کے سبب بے اثر ہوگئے۔آج آئین پاکستان کے اندر کسی بھی امیدوار کے لئے 62اور 63کی شقیں موجود ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فرض ہے کہ وہ ان آئینی تقاضوں کی چھلنی میں سے ہر درخواست دہندہ کو گزارے لیکن ہمارے دل میں پائے جانے والے وسوسے ایسے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں بھی صالح افراد کی آمد ایک کار لاحاصل ہی دکھائی دیتا ہے۔ اصلاح احوال کا یہی مضمون تھنکرز فورم کے گزشتہ اجلاس میں بھی زیر بحث تھا۔ فورم میںشرکت کرنے والوں میںفورم کے چیئرمین اور سابق ایئرچیف کلیم سعادت ‘حکمت و دانائی کا مرقع اور فورم کے سیکرٹری جناب کرنل بختیار حکیم ‘ایٹمی سائنسدان جناب سلطان بشیر محمود’ سچل انرجی کے چیف ایگزیکٹو’مخیراور فروغ تعلیم میںعملی طور پر شریک جناب کاشف متین سہیل’انتخابی سیاست کے معروف تجزیہ نگار جناب کنور دلشاد’ بریگیڈیئر آصف ہارون راجہ اور طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد موجود تھی۔ راقم نے ان احباب کی الیکشن 2013ء کے موضوع پر تقریریں اور تنقیدیں سننے کے بعد عرض کی کہ ”’ میں تمام احباب کے خیالات کی تہہ دل سے قدر کر تاہوں۔آپ نے جن مسائل کی نشاندہی فرمائی وہ بھی درست ہے۔آپ جن خدشات کا اظہار کر رہے ہیں وہ یقینا قابل غور ہیں۔دھاندلی کو روکنا واقعتا الیکشن کمیشن کا فرض اولین ہے اور ووٹرز کو پولنگ بوتھ پر بے خوف و خطر پہنچانے کی فضاء پیدا کرنا بھی نگرانوں کی ذمہ داری ہے ۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ووٹرز کی اصلاح وتربیت کیسے ہوگی۔ اصل کرنے کا کام یہی ہے۔ پارٹیوں کے منشور اپنی جگہ لیکن کیا اس ملک کے دانشور محض ان ہوٹلوں میں بیٹھ کر اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔میرے نزدیک ہم سے ہر فردپر فرض ہے کہ وہ تبلیغی جماعت والوں کی طرح گلی محلے میں ٹولیوں کی صورت میں باہر نکلیں ‘بغیر کسی سیاسی وابستگی کے عوامی بیداری کی مہم چلائیں’لوگوں کو جا کر بتائیں کہ صالح افراد کو ووٹ ڈالنا صرف قومی نہیں بلکہ اسلامی فریضہ بھی ہے۔ آپ نیکی کے پلڑے میں وزن ڈالیں گے تو اس کے بدلے آپ کو دنیا میں معاملات ریاست چلانے کے لئے اہل اور اچھے حکمران نصیب ہوں گے اور آخرت میں اس کے بدلے جنت ملے گی اور اگر تم نے برائی کے پلڑے میں ووٹ ڈالا تو نہ صرف یہ زندگی جہنم بنے گی بلکہ آخرت میں بھی دہکتی ہوئی آگ ہوگی۔قرآن حکیم کا ارشاد ہے۔”اورنیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور برائی کے کاموں میں ہرگز مدد نہ کرو”۔قارئین کرام! نیک لوگ اس وقت تک ہماری قیادت کے لئے آگے نہیںآسکتے جب تک قرآن کریم کی روشنی میں افراد کی تربیت نہیں کرتے اور ہم برے لوگوں کا راستہ نہیں روکتے۔ ہر جماعت اور گروہ میں صالح اور اہل لوگ موجود ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم پارٹیاں دیکھ کر ووٹ ڈالیں گے ‘یاباکردار افراد کا انتخاب کریں گے؟۔