Apr 10

Click here to View Printed Statement

ہم کاروبار اس لئے کرتے ہیں تاکہ منافع کما سکیں اور اپنی روزمرہ ضروریات کو پورا کرتے ہوئے بہتر سے بہتر معیار زندگی حاصل کرسکیں۔شائد ہی دنیا میں کوئی ایسا شخص ہو جوخسارے کے لئے کاروبار کرتا ہو۔اصل مسئلہ یہ نہیں کہ کاروبار سے منافع نہ کمایا جائے بلکہ منافع کا جذبہ ہی کاروبار یا تجارت کی کامیابی کا بنیادی سبب ہے۔ ایک حدیث مبارکہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دولت کے دس حصوں میں سے نو حصے کاروبار یا تجارت میں رکھ دیئے ہیں۔ جو شخص کاروبار کرتا ہے وہ دراصل رب العالمین کی ربوبیت کے کارعظیم میں حصہ بھی ڈالتا ہے۔ارتکاز دولت کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی کاروبار ہی ہے کہ اس عمل میں انسان اپنے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ چلنے والوں کے لئے بھی کماتا اور تگ و دو کرتا ہے۔

جائز اور ناجائز کاروبار کی تقسیم اس اصول پر قائم ہے کہ کیا منافع جائز حدود میں ہے اور کمائے گئے منافع میں سے اسلام کے طے کردہ اصولوں کے مطابق خرچ ہوا ہے یا نہیں۔ہر کاروباری آدمی بنیادی طور پر سرمایہ اور محنت کے مناسب امتزاج سے اشیاء کی پیداوار ممکن بناتا ہے۔بہترین سرمایہ کاری یہ ہے کہ سرمایہ ڈوبے نہ منافع کم ہو۔ پاکستان میں بہت سے ایسے زیرک کاروباری لوگ موجود ہیں جنہوں نے انتہائی کم سرمائے اور بے پناہ محنت کے بل بوتے پر ایسے پیداواری ادارے قائم کئے ہیں کہ وہ بہترین سرمایہ کاری کی ہر تعریف پر پورا اترتے ہیں۔پاکستان ویناسپتی مینوفیکچرایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین ‘وحید گروپ آف کمپنیز کے مالک اور شفاف تجارت کے معتبر نام جناب شیخ عبدالوحید بھی ایسی ہی شخصیات میں شامل ہیں۔”پاکستان کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ بنکوں میں رقم رکھنے کی بجائے اسے گردش میں لایا جائے اور کاروباری ادارے اور پیداواری یونٹس لگائے جائیں تاکہ پاکستان کے مزدوروں’ کارکنوں اور ہنرمندوں کو روزگار ملے اور ملکی معیشت کا پہیہ پوری رفتار کے ساتھ گھومتا رہے۔ میرے لئے بھی بڑا آسان تھا کہ میں کوئی ملازمت وغیرہ کرتا اور اچھی تنخواہ لے کر اپنی اور فیملی کی ترقی تک محدود رہتا۔کاروبار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور پاکستان میں جہاںبجلی ہے نہ گیس’ قانون کے نام پر رشوت بٹورنے اور حوصلے توڑنے والوں کی تعداد ان گنت ہو’ایسے ملک میں کاروبار کرنے سے بھاگ جانا بہتر آپشن معلوم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب میں نے ملک سے باہر کاروبار کرنے کی بجائے اسی سرزمین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے اور خدا نے مجھے بہت ترقی دی۔”مجھے جناب شیخ عبدالوحید کے صادق جذبے کو دیکھ کر اور سن کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔شیخ عبدالوحید تھوڑی دیر کے لئے رکے اور پھر کہنے لگے”’ڈاکٹر صاحب اگر اس ملک میں صرف ٹیکس اور پولیس کا نظام درست ہوجائے تو دیکھیں کس طرح لوگ سرمایہ کاری کی طرف پراعتماد طریقے سے بڑھتے ہیں۔کاروباری لوگوں کے بارے میں خواہ مخواہ کا ایک غلط تصور جڑ پکڑچکا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکس دہندگان کے لئے کوئی سہولت ‘عزت کا کوئی ذریعہ یا کسی قسم کی کوئی رعایت ہے ہی نہیں’ہم ڈاکہ ڈال کر پیسہ نہیں کماتے بلکہ محنت اور اپنا سکون برباد کرکے رزق ہلال کماتے ہیں۔رزق ہلال کمانے والے کو اللہ اپنا دوست قرار دیتے ہیں لیکن ہمارے حکمران’ ذرائع ابلاغ اسے چور سمجھتے ہیں۔آپ کبھی اخبارات میں ٹیکس ریٹرن کے لئے شائع ہونے والے سی بی آر کے اشتہارات دیکھیں۔ایسی ایسی وارننگز دی جارہی ہوتی ہے کہ جیسے کاروباری حلقے اس فرض سے مکمل طور پر غفلت برت رہے ہوں۔ کیا وجہ ہے کہ ٹیکس کی وصولی کے لئے چھاپے مارنے پڑتے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ لوگ ٹیکس دیتے وقت گھبراتے ہیں کہ اگر ایک بار ان کے ہتھے چڑھ گئے تو یہ زندگی بھر کی جمع پونجی لے کر بھی جان نہیں چھوڑیں گے۔””ڈاکٹر صاحب میں نے سوچا کہ اب میں خدمت خلق کے کاموں میں سرمایہ کاری کروں۔ اسلامی تعلیم وتربیت  اور نادار لوگوں کی صحت کیلئے ایک جامع منصوبے پر کام کر رہا ہوں۔اس سرمایہ کاری کا مجھے اس دنیا میں تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ آخر میں مجھے اس کے اجر سے نوازیں گے”۔شیخ عبدالوحید  صاحب کے جذبہ کو دیکھ کر مجھے قرآن کی وہ آیات یاد آئیں”’مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا  فَیُضٰعِفَہ  لَہ  اَضْعَافًا  کَثِیْرَةً وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ وَاِلَیْہِ  تُرْجَعُوْن””کون ہے جو اللہ پروردگار عالم کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے اس کو کئی حصے زیادہ دے گا۔ اور اللہ ہی روزی کو تنگ وکشادہ کرتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹ جائو گے(پارہ ٢’سورہ البقرہ آیت ٢٤٥)۔” وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ  وَمَنْ  یُّوْقَ  شُح  نَفْسِہ  فَاُولٰئِکَ  ھُمُ  الْمُفْلِحُوْنَ اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰہَ  قَرْضًا حَسَنًا   یُّضٰعِفْہُ  لَکُمْ   وَیَغْفِرْلَکُمْ  وَاللّٰہُ  شَکُوْر” حَلِیْم” ”اگرتم اللہ کی راہ  میں خرچ کروگے تو یہ تمہارے ہی حق میں بہتر ہے اور جو شخص طبیعت کے بخل سے بچایا گیا تو ایسے ہی لوگ راہ پانے والے ہیں’ اور اگر تم اللہ کو قرض دو گے تو وہ تم کو اس کا دوچند دے گا اور اللہ قدرشناس اور بردبار ہے۔(پارہ ٢٨’سورہ التغابن آیت ٦١۔١٧)۔سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے”اللہ کی قسم وہ مومن نہیں’جوخود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کاپڑوسی بھوکاسوئے”پاکستان میں بسنے والے صاحبان حیثیت کے بارے میں یہ تاثر درست ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں ‘بلکہ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ پاکستان چیئرٹی کی مد میں رقوم خرچ کرنے والادنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جناب شیخ عبدالوحید جیسے جذبہ سے سرشار ہو کر ہم زیادہ سے زیادہ رفاعی اور اصلاحی اداروں کے قیام کی طرف متوجہ ہوں تاکہ فرد اور معاشرہ دونوں بیک وقت اصلاح اور فلاح کی منزل سے ہمکنار ہوسکیں۔قرآن کی روشنی میں یہی بہترین سرمایہ کاری ہے۔

 

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply