Apr
22
|
Click here to View Printed Statement
وہ کس قدرمتکبر تھا’ خود اسے بھی اپنے تکبر کی حدود کا علم نہیں تھا۔اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون بن جاتا تھا۔ اس کے اشارہ ابرو سے مملکت میں ہلچل مچ جاتی تھی۔ وہ دن کے وقت طاقتور اور رات کے عالم میں انتہائی طاقتور ہوجاتا تھا۔سگار’کافی اور گلاس اس کا شوق تھے’ساغرومینا اس کے سامنے دست بستہ رہتے تھے۔ اس نے ریفرنڈم کرایا تو رجسٹرڈ ووٹوں سے بھی کہیں زیادہ ووٹ اس کے حق میں پڑتے تھے۔اس نے روشن خیالی کے نام پر ہر اچھے اور صالح خیال کا گلا گھونٹا۔
وہ کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔ حتی کہ اسے کعبہ کی چھت پر چڑھنے سے بھی ڈرنہ لگا۔اسے سید زادہ ہونے کا دعویٰ تھا لیکن وہ لال مسجد میں محصور بچیوں پر دہکتے بارود کے گولے پھینکتا رہا لیکن اسے ڈر نہیں آیا۔ اس نے اپنے ہر مخالف کو تھرڈ ڈگری ٹریٹمنٹ کے ذریعے بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔وہ اور اس کے ساتھ شامل جتھہ اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا’ جی بھر کے لوٹتا رہا۔چیف جسٹس پر ہاتھ ڈالا’محسن پاکستان کو رسوا کیا۔ اس نے یہ ملک امریکیوں کے ہاتھوں گروی رکھا اور اپنے شب وروز جگماتا رہا۔12اکتوبر 1999ء کو اس نے پوری فوج کی طاقت کو اپنی ذات میںسمیٹا اور ایک منتخب وزیراعظم کو ہتھ کڑیاں لگاکر اٹک قلعہ میں مچھروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ وہ چالیں چلنے کا ماہر تھا اور بالآخر اپنی اسی مہارت کے ہاتھوں مات کھا کر قصر صدارت سے نکالا گیا۔ اس نے پوری قوم کا سودا کیا تھا اور اس کے بدلے اسے ڈھیروں ڈالر مل گئے تھے۔وہ بیرون ممالک عالمی وی آئی پی کے طور پر سفرکرتا اور امریکی دائرہ اثر میں آنے والے ممالک اس کو عظمت اور تکریم کے ساتھ اپنے ہاںمہمان بناتے رہے۔اس کی زندگی میں رونقیں اور رعنایاںجلوہ گر تھیں۔لیکن اسے کسی پل چین نہیں آرہا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس شاطر شخص کے دل میں پھر سے مملکت اسلامیہ کا آمر مطلق بننے کی خواہش پیدا کردی۔ اس کو اس کا ماضی ستانے لگا۔ وہ ایک بار پھر اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کی آرزو لئے پاکستان آگیا۔ اور اٹھارہ کروڑ دکھے دلوں پر نمک پاشی کرنے لگا۔ اس نے ٹوئٹر اور فیس بک پر سراب آسارائے کو اپنی ہر دلعزیزی سمجھا اور دھوکے میں آگیا۔اس کا خیال تھا کہ وہ اسلام آباد ایئرپورٹ اترے گا تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اس کے استقبال کے لئے نکل آئے گا۔یہ سچ کہ زرداری ٹولے نے عوام کی زندگیاں اجیرن کردی تھیں اور بہت سے لوگ موازنے کے طور پر مشرف کے دور حکومت کو شک کا فائدہ دے رہے تھے۔ لیکن پاکستانی قوم اس قدر بالغ النظر ہوچکی ہے کہ انہوں نے ہر برائی سے برآت کا اعلان کر رکھا ہے۔انہوں نے مشرف کی ”ملک بچائو”مہم میں حصہ بننے کی بجائے اس قومی مجرم کو کیفرکردار تک پہنچانے کی آرزو جوان کی اور مشرف کو سیاسی طور پر تنہا کردیا۔وہ پارٹی کے ٹکٹ بانٹنا چاہتا تھا لیکن ٹکٹ لینے والا کوئی نہ تھا۔وہ جلسے کرنا چاہتا تھا لیکن موت کا خوف اسے باہر نکلنے نہ دیتا تھا۔ الیکشن ٹریبونل نے اسے نااہل قرار دے دیا اور سیاسی طور پر اس کا چیپٹر ہمیشہ کے لئے بندہوگیا۔پاکستان کی عدلیہ نے معجزے کر دکھائے۔ایک ایک جج افتخار چوہدری بن گیا اور پرویز مشرف کی ضمانت منسوخ کرتے وقت نہ کسی جج کے ماتھے پر پسینہ آیا نہ فیصلہ لکھتے وقت ہاتھ کپکپائے۔عبوری حکومت جو کہ اپنے اختیارات کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہوتی ہے اس نے جب پاکستانی قوم کی اجتماعی سوچ کو بھانپ لیا تو وہ طاقتور ہوگئی اور عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کا عہد کیا۔ابھی جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف صرف ایک کیس کے حوالے سے کارروائی آگے بڑھی ہے۔مقدمات کی ایک طویل فہرست ہے اور جوں جوں وقت گزرے گا کارروائیاں بھی سخت تر ہوتی جائیں گی۔وہ شخص جو ”خدا” ہونے کا دعوے دار تھا آج اس کے طاقتور ترین مددگار بھی بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔بلکہ ملک کے مقتدر حلقے قانون کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔کروڑوں روپے سے تعمیر شدہ فارم ہائوس اسی شہر میں موجود ہے لیکن اس کے مکین کو اس میںرہنا نصیب نہیں ۔ اس کی جائے پناہ پولیس لائینز ہے۔اور وہ بھی ایک ملزم بلکہ مجرم کی حیثیت سے ۔وہ سگار اب بھی پیتا ہوگا’شائد اسے ساغر و مینا بھی میسر ہوں لیکن اب اس کی راتوں کا سرور ہوا ہوچکا اسے رہ رہ کر اٹک قلعہ یاد آتا ہوگا۔ وہ خواب میں ڈر جاتا ہوگا۔ اس کا مستقبل قانون اور آئین کے باغی کی سزا سے جڑ گیا ہے۔اس نے اپنی تقدیر کو خود گلے لگا لیا ہے۔وہ کسی سے نہیں ڈرتا اور اس کا یہی تکبر اسے پاکستان کھینچ لایا ہے۔ جب سانپ کی موت آتی ہے تو وہ راستے پر آجاتا ہے۔اور راستے پر عدلیہ انصاف کا ترازوتھامے مجرموں کو سزا سنانے کے لئے مستعد کھڑی ہے!۔