Sep
17
|
Click here to View Printed Statment
پاکستان کی سیاسی تاریخ غلط فہمیوں سے بھری پڑی ہے۔شائد باقی ملکوں اور قوموں کے ہاں بھی یہی چلن ہو۔ لیکن اپنے وطن میں قیام پاکستان کے بعد سامنے آنے والی سیاسی بلوغت محض ایک دھوکہ‘ سراب اور فریب دکھائی دیتا ہے۔ میں تفصیلات میں جانے کی بجائے حالیہ سیاسی نوک جھونک کے حوالے سے چندنکات سامنے لانے پر اکتفا کروں گا۔
بریگیڈیئر (ر) امتیاز المعروف بریگیڈیئر بِلانے چند ”انکشافات“ سے سیاست کے بڑے بڑے گھرانوں اور گھروندوں کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر ”بِلے“ پر برسنے اور دھاڑنے والی ہر قسم کی مخلوق کے خیالات ‘انداز واطوار‘ اخلاق اور نظریات کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے جبہ و دستار‘شیروانی و واسکٹ اور ٹائی اور کوٹ والے ہر صاحب سیاست کے دل میں چھپی خباثتیں‘ غلاظتیں‘حماقتیں اور منافقتیں کھینچ کر باہر سڑک پر رکھ دی ہیں۔ سیاستدانوں نے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف بریگیڈیئر (ر) امتیاز کو گالیاں دیں ہیں‘گرفتار کرنے کے مطالبے کئے ہیں اور ”شیطان کا وکیل “ قرار دیاہے۔ مجھے بریگیڈیئر ”بِلا“ کے کردار کے بارے میں کوئی وضاحت کرنامقصود نہیں ہے لیکن بعض اوقات برائی سے اچھائی بھی نکل آتی ہے اورحسن اتفاق سے یہ اچھائی ایم کیو ایم کے حق میں نکلی ہے۔ بحث و تکرار کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ ”جناح پور“ کا شوشہ محض الطاف حسین کی مقبولیت کو ختم کرنے کی ایک کوشش تھی-اسٹیبلشمنٹ کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ الطاف حسین کی عوامی تحریک پر علیحدگی پسندی اور جناح پور بنانے کے الزامات لگا کر محب وطن حلقوں کے جذبات کو مشتعل کرتی۔پکا قلعہ آپریشن کے حوالے سے بھی بہت سے معاملات پہلی بار سامنے آئے اور میرے لئے حیرت انگریز بات یہ ہوئی کہ الطاف حسین نے اس آپریشن اور نائن زیرو پر یلغار جیسے تمام ریاستی مظالم کے ذمہ داروں کو معاف کردیا۔یہ وسعت قلبی اور حب الوطنی کا خوبصورت مظاہرہ ہے۔ ہماری آئین شکنی کی تاریخ میں صرف آئین کی شق چھ کی زد میں آنے والے ہی مجرم نہیں بلکہ انسانی حقوق کی پامالی‘قومی سا لمیت کیساتھ کھیلواڑ اور صوبائی منافرت میںملوث سرکاری اور عسکری کرداروں کی بھی کمی نہیں ہے۔
ہمیں یہ بھی غلط فہمی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد آہنی ا عصاب کے مالک ہیں‘ اصولوں سے سرمو انحراف نہیں کرتے اور پاکستان کو بھنور سے نکالنے کے لئے تگ و دو کررہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جناب نوازشریف کو امریکہ سمیت کسی طاقت سے خوف نہیں آتا۔انہوں نے صدر پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے لئے جناب آصف علی زرداری پر جو دباﺅ ڈالا ہے اور جس سخت لہجے میں بات کرتے رہے ہیں وہ کسی ذاتی مخاصمت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ملک میں ہمیشہ کےلئے مارشل لاءکا راستہ بند کرنے کے لئے کیا ہے اور وہ کسی بیرونی طاقت کے کہنے پر اس مطالبہ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ لیکن یہ ساری باتیں ثبوت کے ترازو پر تولیں تو محض غلط فہمیاں دکھائی دیں گی۔ جس طرح خادم حرمین شریفین نے سابق صدر پرویز مشرف کا سرخ قالین پر استقبال کیا اس نے مشرف کے مخالفوں کی نیندیں حرام کردی ہیں اور جس طرح میاں محمد نوازشریف کو شاہی خاندان نے ”معمول“ کے پروٹوکول تک محدود رکھا اس سے میاں نوازشریف کے چاہنے والوں کے دلوں پر اوس سی پڑ گئی ہے اور سب سے بڑھ کر ظلم یہ ہوا ہے کہ سعودی فرمانرواں سے ملاقات کے بعد میاں صاحب کو چپ سی لگ گئی ہے اور وہ مشرف کے ٹرائل کے مطالبے کو مطالبات کی فہرست میں کہیں آخری نمبر پر لے گئے ہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ دسمبر میں سابق صدر پرویز مشرف کی واپسی کسی ٹارزن کی واپسی ثابت ہو‘ لیکن مسلم لیگ (ن) کا شیر شائد کبھی دھاڑ نہ سکے کہ اب لوگ نئی غلط فہمیوں کا شکار ہونے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔
ایک غلط فہمی روس کے بارے میں پھیلائی گئی تھی۔افغان جہاد کے دنوں میں پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جاتی تھی کہ روسی معیشت تباہی کا اس قدر شکار ہوگئی ہے کہ روسی عورتوں اور مردوں کو ایک برگر لینے کے لئے صبح سے شام تک قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اگر تم بھوک اور افلاس کے اس عذاب سے خود کو بچانا چاہتے ہو تو روس کے خلاف امریکی جنگ میں جت جاﺅ۔ یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی۔آج پاکستان میں دیوار چین کی طرح بل کھاتی قطاریں ہی قطاریں ہیں۔ ایک تھیلا آٹے کے لئے ‘ایک کلو چینی کے لئے ۔کراچی میں مفت راشن کا سہانا سپنا لے کر مفلوک الحال بچیاں اور مائیں کھوڑی گارڈن میں قطار اندر کھڑی تھیں۔مفت راشن تو حاصل نہ کرسکیں مفت کی موت لے آئیں! کیا ہمارا انجام بھی روس کی طرح ……..؟ خاکم بدہن