May
01
|
Click here to View Printed Statement
ایسا بزدل نکلا۔کمانڈو ایسے ہوتے ہیں؟میرے بہت سے قومی بھائی کمانڈو ہیں۔ایس جی کمانڈوز۔کیا چیتے کی پھرتی ہوتی ہے ان میں۔آنکھوں سے شعلے اگلتے ہیں۔دشمن پر جھپٹتے اور بے بس کردیتے ہیں۔وہ موت کا تعاقب کرتے ہیں۔پاکستانی فوج کے کمانڈو کا نام سن کر موت خوفزدہ ہوجاتی ہے۔ہماری بہادر مسلح فوج اپنے کمانڈو کو ایسے تربیتی ماحول سے گزارتی ہے کہ جسم ہی نہیں ذہن بھی لوہا بن جاتے ہیں۔انہیں مستقبل کے خوف ڈرا نہیں سکتے۔وہ واقعتاً کسی سے نہیں ڈرتے۔پاکستانی کمانڈوز کی تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کی جاتی ہے۔وہ کسی بے گناہ کا قتل نہیں کرتے۔کسی بچے کسی عورت کی جان نہیںلیتے۔وہ کسی مظلوم مہمان کو گرفتار کرکے دشمنوں کے آگے بیچتے نہیں۔وہ اپنے قومی وقار پر حرف نہیں آنے دیتے۔
وہ پہاڑوں پر ہیبت طاری کرتے ہیں اور اپنوں کے ساتھ ریشم کی طرح نرم روی اختیار کرتے ہیں۔کمانڈو ہونا ذلت نہیں اعزاز کا حوالہ ہوتا ہے۔کمانڈو روتے نہیں’ ہرحال میں مسکراتے رہتے ہیں۔اصلی کمانڈوسچا مسلمان اور پکا پاکستانی ہوتا ہے۔ڈالرز’ڈونرز اور ڈارلنگز ان کے ارادوں کو متزلزل نہیںکرسکتے۔وہ صوم وصلوٰة کے پابند ہوتے اور اعلیٰ انسانی اصولوں کے لئے ہتھیار اور ہاتھ اٹھاتے ہیں۔وہ اقتدار سے کوسوں دور رہتے ہیں۔انہیں انگریزی میں ”ان سنگ” ہیروز اور اردو میں ”خاموش مجاہدین” کے لقب سے تاریخ میں یاد رکھا جاتا ہے۔یہ کیسا کمانڈو ہے جو موت کے خوف سے بھاگتا پھرتا ہے۔جو سگار’کافی اور ”مشروب” کو اپنا سہارا بناتا اور اللہ کی عبادت سے گریزاں رہتا ہے۔کیا اس کی زندگی کا مقصد اب بونس کے چند سال مزید زندہ رہنا اور اپنے پرتعیش لائف اسٹائل کو انجوائے کرنا رہ گیا ہے۔اگر ایسا خواب بھی دیکھا ہے تو پھر یہ بزدلانہ حرکتیں کیوں ہیں۔اگر وہ عدالتوں سے نہیں ڈرتا تو پھر فرار کے راستے پر گامزن کیوں ہے۔سلوٹ مارنا شائدا س کی عادت ہے۔وہ پولیس کی حفاظت میں اور بہادر کمانڈوز کے حصار میں بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ اس نے مجسٹریٹ کے سامنے جا کر جس قدر حواس باختہ ہونے کا مظاہرہ کیا’ساتھیوں کو بھی شرما دیا۔یہ کیسا عقاب نکلا جو گدِھّوں کی طرح ایک عدالتی پتھر سے ہی بھاگ کھڑا ہوا۔مشرف نے اس ملک اور اس کے باسیوں کے ساتھ جو کیا’ پاک وطن کو خونخوار امریکیوں کے آگے ڈال دیا کیا وہ کم جرم ہے۔لیکن فیصلے عدالتوں نے کرنے ہیں۔اس کی پھیلائی ہوئی جدید روشن خیالی نے ماں باپ کو مجبور کردیا کہ وہ اپنی بچیوں کو نیم برہنہ کرکے کالجوں کے فن فیئر پروگراموں میں بھجوائیں کہ آمر مطلق یہی کلچر چاہتے تھے۔کتنے فوجی افسران کومینٹل ٹارچر کیا گیا صرف اس لئے کہ ان کی داڑھی کا سائز ڈیڑھ انچ سے زیادہ تھا اور وہ نماز پنجگانہ ادا کیا کرتے تھے۔ کس کس جرم کی بات کریں۔ آئین توڑنا ریاست سے بغاوت ہے ‘لیکن کسی کے ایمان کا مذاق اڑانا اور اس کے نماز روضے پر اس کی ترقی کے راستے مسدود کردینا انسانیت سے بغاوت ہے۔قدم قدم پر انسانی جذبوں کی توہین کرنے والے اس کوتاہ قامت سیاہ رو شخص نے انسانوں کو شکار کیا اور امریکی بمباری سے بچ کر پاکستان کی حدود میں پناہ کے لئے آنے والوں کو گولیوں سے ٹھنڈا کردیا۔آج چند روز کے ”ہائوس اریسٹ” سے گھبرا گیا ہے۔قصوروار پرویز مشرف کے وکیل قصوری نے رو کر لوگوں کو بتایا کہ اس کا مئوکل اپنی ماں کی یاد میں ہلکان ہورہا ہے اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر ”ہائے ماںہائے ماں”پکارتا رہتا ہے۔مائیں سب کو یاد آتی ہیں۔مسنگ پرسنز کی بھی مائیں ہیں جو رورو کر اپنی بینائی کھوچکی ہیں۔لیکن افسوس کہ آج کے حکمران کمزور قسم کے نگران ہیں۔چونکہ مشرف نے حوالہ اپنی بیمار ماں کا دے دیا ہے۔اس لئے ماں کی خاطر اس بزدل کو عیادت کے لئے جانے دیا جائے۔