May
02
|
Click here to View Printed Statement
بچے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں۔پیروکار اپنے لیڈروں اور رہنمائوں سے رنگ پکڑتے ہیں۔پیروکاروں کے مزاج اور طرز تکلم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا لیڈر کیسا ہوگا اور لیڈر کے رویے اور انداز گفتگو سے اس کے پیروکاروں کی ذہنی کیفیت کا اظہار ہوجاتا ہے۔آجکل فیس بک پر سیاسی تنازعات اور فکری اختلافات کے حوالے سے ایسا ایسا مواد سامنے آرہا ہے کہ پبلک ٹائلٹس پر لکھی تحریریں بھی شرما جائیں۔نوجوانوں کی ایک سیاسی پارٹی نے تو انتہا کردی ہے۔وہ مخالف سیاسی تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں پر باقاعدہ حملہ آور ہوتے اور دشنام طرازیوں کے ساتھ یلغار کرتے ہیں۔طفلان انقلاب کا تعلق پسماندہ طبقات سے نہیں کہ وہ تہذیب اور سلیقہ کی ہر حد کو پھلانگ جائیں بلکہ زیادہ تر مڈل کلاسیے ہیں
جن کا اوڑھنا بچھونا ہی وضع داری اور ادب و احترام ہوتا ہے۔میں نے ماضی کے ایک ”انقلابی” سے اپنی تشویش کا اظہار کیا تو انہوں نے مجھے انقلابی رہنماء کے اقوال پڑھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ جس تحریک کا سربراہ اپنی زبان پر قابو نہ رکھ سکے اور جوش خطابت میں دلیل کی بجائے تضحیک پر اتر آئے اس کے پیروکاروں سے مہذب لب و لہجے کی توقع کرنا عبث ہےَڈان اخبار نے لکھا ہے کہ عمران خان اپنے خطابات میں ایک آدھ جملہ جناب زرداری کے خلاف بولتے ہیں۔باقی کا سارا زہر وہ شریف برادران کے خلاف اُگلتے ہیں۔یہ رویہ بھی خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ قوم بحیثیت مجموعی اپنے تمام دکھوں کا سبب زرداری اور مشرف کو سمجھتے ہیں لیکن عمران خان اس قوم کو شریف برادران سے نجات کی خوشخبریاں دیتے ہیں۔ وجہ بیان فرماتے ہوئے خان صاحب نے کہا کہ چونکہ زرداری نے دوبارہ اقتدار میں نہیں آنا اس لئے وہ نوازشریف کا راستہ روک رہے ہیں۔انتخابات لڑنا اور اپنے ووٹرز کو اپنے پروگرام کی طرف مائل کرنا ہر سیاست دان کا حق ہے لیکن کسی پارٹی کے رہنما پر ذاتی حملے سمجھ سے بالاتر ہیں۔اگر میاں برادران اقتدار میں نہ آئے تو کیا ”نیا پاکستان” بن جائے گا۔ایسی ناپختگی پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔بہرحال عمران خان کے والد بہت ہی معزز انسان تھے اور ان کی زبان اور ہاتھ سے شائد ہی کسی انسان کو نقصان پہنچا ہو۔شریف برادران کی سیاست سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن وہ خدانخواستہ کسی دشمن ملک کے شہری نہیں بلکہ اسی ملک کے رہنے والے ہیں اور جتنے عمران خان مسلمان ہیں اتنے یا اس سے کم یا زیادہ وہ بھی راسخ العقیدہ مسلمان اور پاکستانی ہیں۔ انسان کی سب سے قیمتی جائیداد تو اس کی اولاد ہوتی ہے۔اگر شریف برادران کے بیرون ملک اثاثے ہیں تو جناب عمران خان کے بیٹے باہر ہیں بلکہ اپنی والدہ کے زیر سرپرستی پروان بھی چڑھ رہے ہیں۔عمران خان اپنی جوانی کی عمر میں الزامات سے بھرپور زندگی گزارنے کے باوجود پارسا ہیں تو دوسروں کو وہ کیسے ”شیطان” ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ باہمی احترام اور ایک دوسرے کے نام نہ بگاڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہوا ہے۔”ڈینگی برادران” ”سرکس کے شیر””گیڈر کبھی لیڈر نہیں ہوتا”۔شوباز’ڈرامہ باز” یہ کیسی لُغت ہے جو عمران خان کے منہ سے پھسل پھسل جاتی ہے ۔قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے۔”قُولُولالناس حسنیٰ”اور جب بات کرو تو احسن طریقے سے کرو۔ عمران کو قرآن کا طالب علم ہونے کا دعویٰ ہے۔انہیں اپنے رویے پر سوبار سوچنا چاہیے۔محض ایک دو کالم نوسیوں کے دیے ہوئے تبرّے اور طعنے اپنے منہ میں ڈال کر اپنے قد کاٹھ کو بازاری پن سے لتھڑنے مت دیں۔الفاظ ساری زندگی انسان کا پیچھا کرتے ہیں۔آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے۔عمر بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں۔دوسری اہم اور ضروری بات یہ کہ قومیں اپنے مزاج رہنمائوں کو دیکھ کر ترتیب دیتی ہیں۔اگر رہنماء ایسی لغویات بولیں گے تو پھر قوم کو غیر مہذب ہونے سے کون بچائے گا۔کیا عمران خان ایسا نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جہاں ہر کوئی دوسرے کو ”اوئے” کہہ کر پکارے اور بزرگوں اور بڑوں کے نام بگاڑے؟تہذیب اور شائستگی ہماری اسلامی اقدار کا لازمی حصہ رہا ہے۔مخالفت اس قدر بائولانہ کردے کہ ہم تہذیبی انحطاط کی راہ پر چل پڑیں اور ہمارے بچے ہم سے پوچھتے پھریں کہ ابو ”سونامی خان اور شوباز” کس کو کہتے ہیں۔