May
22
|
Click here to View Printed Statement
بے پناہ اور اکثر اوقات غیر ضروری معلومات تک بہ آسانی رسائی نے ہر بالغ پاکستانی کو مستقل ناقد بنا دیا ہے ۔ جس کو دیکھو جہاں دیکھو تنقید ہی تنقید ہورہی ہے۔ اس تنقیدی فضا کا نقصان بہت ہورہا ہے۔ اور وہ نقصان یہ کہ آج کا کوئی بھی بالغ پاکستانی کسی پر کسی طرح کا اعتماد کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس کی ذہنی کیفیت ایسی ہوگئی ہے کہ خود فرد کو اپنے کئے ہوئے عمل پر بھی اعتماد نہیں رہا۔
بداعتمادی نئے نئے طرزکے رَدِعمل سامنے لارہی ہے۔ہم نے جن کو ووٹ دیئے ہمیں ان کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں ۔ ہم نے جن کیخلاف ووٹ ڈالا ان کی مخالفت پر شک ہے۔ بے یقینی ایسے پھیلی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس سب سے عظیم مخلوق کی’’ By Default‘‘ قسم کی خوبیوں پر بھی یقین نہیں رہا۔آگ جلاتی ہے اس کا یقین ہے‘پانی بہاتا ہے اس پر بھی یقین ہے‘مٹی اگاتی ہے اس کا بھی یقین ہے لیکن انسان بہتری لاسکتا ہے‘بگڑے معاملات سنوار سکتا ہے‘اصلاح احوال کرسکتا ہے
‘تعمیروترقی کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔اس کا ہمیں یقین نہیں۔ ہم اس قدر بے صبرے ہیں کہ دودھ کو دہی بننے میں جتنا وقت درکار ہوتا ہے اتنے وقت کے لئے بھی صبر نہیں کرسکتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر روز کوئی مجعزہ دیکھیں ‘کوئی مداری ہو اور ریت سے جلیبی نکال کر دکھادے‘ہتھیلی پر سرسوں جما دے اور منہ کھلے تو بجلی نکلنی شروع ہو۔ درختوں پر انرجی کے بڑے بڑے گولے جھولنے لگیں۔ہم ایسے بے صبر ہیں کہ ہمارے صبر اور شکر کا پیمانہ ہر وقت لبریزرہتا ہے۔ہم ہر وقت تحریک چلانے‘ دھرنا دینے اور مظاہرہ کرنے پر کمربستہ رہتے ہیں۔ہمارا سب سے مرغوب قومی مشغلہ مظاہرے کرنا ہے۔چھوٹا مظاہرہ‘درمیانہ مظاہرہ‘بڑا مظاہرہ۔اسلامی طرز کا مظاہرہ‘برگرز کا مادرپدرآزاد مظاہرہ۔آپ کو کسی اخبار میں اشتہار دینے کی ضرورت نہیں آپ صرف چند ٹی وی رپورٹرز کو ایس ایم ایس کریں کہ اس وقت لالکڑتی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرہ ہورہا ہے۔ بس اس ایس ایم ایس کی ضرورت ہے۔رپورٹرز کیمرہ مین اور ان کی گاڑیاں 1122 سے بھی پہلے پہنچیں گی وہ آپ کو خود گائیڈ کریں گے۔’’یہاں ایک زبردست ہجوم ہے‘ٹریفک جام ہے‘ لوگ نڈھال ہیں۔بچے اور عورتیں بھی شریک ہیں۔گزشتہ اٹھارہ گھنٹے سے بجلی نہیں آئی۔ایک قیامت کا سامان ہے۔‘‘اور خدا جانے کیا کیا فارمولہ رپورٹنگ ہوتی ہے۔ اچانک ایک چھوٹا سا مظاہرہ ایک بہت بڑے جلوس میں تبدیل ہوجائے گا۔ٹائروں کو لگی ہوئی آگ گاڑیوں کو لپیٹ میں لے لے گی۔محکمہ کے دفاتر پر پتھراؤ ہوگا۔پکڑ دھکڑ ہوگی لیکن بجلی پھر بھی نہیں ہوگی کہ بجلی اگر مظاہروں سے آتی ہوتی تو گزشتہ پانچ برسوں میں ضرور آجاتی۔تبدیلی کے خواہشمندوں نے نئے نئے چوزوں کی طرح میدان سیاست میں دانا چُگنا شروع کیا تو انہیں بھی اپنی سیاسی ترتیب کا بہترین طریقہ مظاہرے اور دھرنے ہی محسوس ہوئے۔یہاں دھرنا وہاں دھرنا۔یہ کام تو پہلے ہی ہورہا تھا۔تبدیلی کس بات کی؟
ذرائع ابلاغ کا کام تعلیم بھی ہوتا ہے۔کیا قوم کو بتایا نہیں جاسکتا کہ بجلی کے بحران کا بنیادی سبب کیا ہے۔لوگوں کو کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ایک آدمی کے لئے تیار کی گئی روٹی کو جب سو آدمی کھانے کی کوششیں کریں گے تو سب بھوکے ہی سوئیں گے۔کوئی نیا ڈیم بنا‘کوئی نئے ایٹمی بجلی گھر لگے‘کوئی سولر انرجی کوئی کوئلے سے توانائی۔کالاباغ ڈیم کا نام لینا گویا منہ کالا کرانے کے مترادف ہے۔جب حقائق یہ ہیں تو بے صبری کیسی‘بداعتمادی کیسی۔آپ نے سوچ سمجھ کر ووٹ دیئے۔ایک پارٹی کو بھاری اکثریت سے مرکز میں پہنچایا۔اب انہیں اقتدار سنھبالنے دیں۔انہوں نے آپ سے وعدے کئے ہیں اور بجلی بحران کے خاتمے کا ایک مکمل منصوبہ پیش کیا۔اسے دیکھ پڑھ کرآپ نے ووٹ دیئے۔تھوڑا سا صبر کرلیں ۔ اس قدر بے اعتمادی کیوں کہ آپ کسی کو کام ہی نہ کرنے دیں اور سیاسی مچھندروں کے ہتھے چڑھ کر خود کو مزید تھکاڈالیں۔ اگر آپ نے لیڈر چنے ہیں تو اپنے لیڈروں پر اعتماد کرنا بھی سیکھیں۔محض ٹی وی چینلز والوں کی رپورٹوں کے لئے خود کو ایندھن کے طور پر مت پیش کریں!۔