May
27
|
Click here to View Printed Statement
(ڈاکٹرمرتضیٰ مغل)ڈالرز اور ڈرونز کا کھیل اب اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔بارہ برس قبل وہ سامان حرب جسے امریکی جنگی اڈوں سے اٹھا کر افغانستان کے طول وعرض میں پھیلایا گیا تھا اب سمٹ کر بڑے بڑے کنٹینرز پر لاد کر واپس امریکہ بھجوانے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔لاکھوں بے گناہ افغانی بچے عورتیں اور بوڑھے آگے اگلتے ٹینکوں سے بھون ڈالے گئے۔ کروڑ کے لگ بھگ دنیا کے غریب ترین لوگ اپاہج کردیئے گئے۔کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں’کتنے بچے یتیم ہوگئے۔2014ء سے پہلے ہی امریکی فوجیوں کا انخلاء شروع ہوگیا۔قابض فوجیوں کی نامراد واپسی کا منظر بڑا ہی عبرتناک ہے۔ ایک افغانی بچہ کنٹینرز پر رکھے ٹینک کے اوپر چڑھتا ہے’ہاتھ فضاء میں لہراتا ہے
اور پھر نیچے چھلانگ مار دیتا ہے۔تصویر بتاتی ہے کہ افغانوں کی ایک نسل امریکی قبضہ کے خلاف لڑتے لڑتے ختم ہوگئی ہے۔خوف ہے نہ غم۔جنگ لڑنا اور دشمن کو بے بس کردینا افغانیوں کا طرز حیات ہے۔برطانیہ ‘روس اور امریکہ کوئی بھی ایسی قوم کو فتح نہیں کرسکتا۔ کوہساروں کے فرزندوں کو شکست دینا ایک بار پھر ناممکن ثابت ہوگیا’کوہسار باقی۔ افغان باقی جارحیت شائد آسان ہوتی ہے لیکن میدان جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد واپسی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔چمن اور طورخم سے کراچی پہنچنے والے ”نیٹو” کے کنٹینرز کہاں کہاں لٹیں گے اور ان کے اندر سے کیا کیابرآمد ہوگا۔ایک حیرت کدہ کھلے گا۔امریکیوں نے اسامہ کے مبینہ شہادت سے قبل ہی افغانستان میں اپنی فوجی شکست کو سیاسی فتح میں تبدیل کرنے کے لئے قطر حکومت کی معاونت اور میزبانی کے ذریعے طالبان رہنمائوں سے مذاکرات شروع کردیئے تھے۔ قطر میں طالبان کا باقاعدہ دفتر بھی کام کر رہا ہے۔ اور معتبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ افغانستان سے انخلاء کے بعد کی حکومت کے خدوخال سمیت طالبان اور افغان عوام کے مالی و جانی نقصانات کے ازالے تک کے معاملات پر بات چیت ہوئی ہے۔یہ وہی طالبان ہیں جنہیں پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینلز امریکی خواہش اور ہمارے مقتدر حلقوں کی ہدایت پر دہشٹگرد قرار دیا جاتا ہے۔یعنی امریکی حکام اگر ان ”دہشتگردوں’ سے مذاکرات کریں تو یہ ایک ”پازیٹو ڈویلپمنٹ” کی سرخی کے تحت جگہ پاتے ہیں لیکن جب پاکستان اپنے طالبان سے مذاکرات کی بات کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ قابض فوجیںاس پر سیخ پا ہوتی ہیں بلکہ ہمارے اپنے روشن خیال جتھے ھبی مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔”دہشتگردوں سے مذاکرات … سوال ہی پیدا نہیں ہوتا”ایک ہی سانس میں ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف برسرپیکار ان طالبان کو ایک مائنڈ سیٹ کا نام بھی دیتے ہیں اور مائینڈ سیٹ کو بندوق کے ذریعے تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔میاں محمد نوازشریف نے طالبان سے مذاکرات کی تجویز دی اور کہاکہ طالبان نے تو شائد سکھ کا سانس لیا ہوگا لیکن روشن خیال اور بزعم خود لبرل حلقوں نے وہ شور مچایا ہے کہ جیسے سندھ کا دریا الٹا بہنا شروع ہوگیا ہو۔ہر جنگ اور خانہ جنگی کا خاتمہ مذاکرات اور جرگے پر ہی ہوتا ہے۔ بات چیت تو دشمنوں کے درمیان بھی کسی نہ کسی طرح جاری رہتی ہے۔ یہ تو پاکستانی معاشرے کا ایک حصہ ہین جن کے بعض تصورات ہمارے اکثریتی طبقہ سے بالکل مطابقت نہیں رکھتے۔”مائنڈ سیٹ” کا فرق ہے ۔آپس میں خون بہانے اور آج کی امریکی جنگ کو اپنی جنگ کہہ کر آنے والی نسلوں تک نفرتیں منتقل کرنے سے بہتر ہے کہ اس خون خرابے کو یہیں روک لیا جائے۔آخر اپنوں سے بات کیوں نہیں کی جاسکتی؟