Jun 26

Click here to View Printed Statement

شریف قریشی صاحب عرصہ دراز سے حج کا قصد کر رہے ہیں لیکن ذمہ داریاں ایسی کہ مطلوبہ رقم ہی جمع نہ ہوسکی۔ماشاء اللہ صحت مند ہیں لیکن کثرت اولاد  نے انہیں مالی طور پر کبھی خوشحال ہونے نہیں دیا۔ادھر ایک بیٹی کی شادی ادھر دوسرے بیٹے کے تعلیمی اخراجات۔ایک دکان اور دس انسان۔ بھلا معمولی درجے کا یہ کریانہ سٹور ہے’آخرقارون کا خزانہ تو ہے نہیں۔ارادہ پختہ تھا تھوڑا بہت پس انداز کرتے رہے اور اس سال اڑھائی تین لاکھ روپے جمع ہوئے تھے۔دکانداری کے معاملات چھوٹے بیٹے کو سونپ کر درخواست جمع کرا دی اور عمر کے 70ویں برس” صاحب استطاعت” کی حیثیت سے یہ مذہبی فریضہ ادا کرنے جارہے تھے۔بہت خوش تھے۔

میں جب بھی ان کی دکان کے پاس سے گزرتا یہی پوچھتے”ڈاکٹر صاحب آپ کو تو کعبة اللہ اور روضہ رسولۖ پر حاضری کی کئی بار توفیق ملی ہے کیا میرے جتنے بوڑھے کے لئے حج کرنا زیادہ مشکل تو نہیں” ان کی صحت اور جذبہ کو دیکھ کر ان کی پیرانہ سالی بے معنی سی لگتی ہے۔میں نے ہمیشہ انہیں حوصلہ دیا اور مناسک حج کی جزیات ازبر کرا دی تھیں۔یہ بھی وعدہ کر لیا تھا کہ میں خود انہیں اپنی گاڑی پر بٹھا کر ایئرپورٹ تک چھوڑنے جائوں گا۔حج کے دوران تھکاوٹ’شوگر اور معدہ کی بیماریوں کے حوالے سے کچھ ہومیوپیتھک ادویات بھی تجویز کردی تھیں کہ قریشی صاحب انگریزی ادویات سے شدید نفرت کرتے ہیں۔تیاریاں تقریباً مکمل تھیں کہ وزارت حج کی جانب سے اخبارات میں اشتہار چھپا جس کا مفہوم کچھ اس طرح تھا کہ چونکہ کعبة اللہ میں توسیع کا کام جاری ہے اس لئے سعودی حکومت نے دنیا بھر کے مسلمانوں اور خصوصاً حکومتوں سے کہا ہے کہ اب کی بار حاجیوں کی تعداد میں بیس فیصد کمی کردی گئی ہے لہٰذا پاکستان کی وزارت حج اپیل کرتی ہے کہ ضعیف ‘بچے اور خواتین رضاکارانہ طورپر ارادہ حج آئندہ برس تک مئوخر کردیں اور اپنی رقوم وزارت حج کے پاس رہنے دیں تاکہ آئندہ سال انہیں یقینی طور پر سعودی عرب بھجوایا جاسکے۔ قریشی صاحب کو یہ اشتہار بھی میں نے ہی پڑھوایا اور اس کے پیچھے پوشیدہ حکمت اور مجبوری سے بھی آگاہ کیا۔قریشی صاحب اشتہار پڑھ کر گم سُم سے ہوگئے۔ ان کے ہونٹوں پر درود شریف تھا اور آنکھوں میں آنسو۔شریف قریشی کے بیٹے اکرم نے مجھے دو دن بعد فون کرکے بتایا کہ ان کے والد بزرگوار نے حج کی رقم واپس لینے کا فیصلہ کیاہے اور اشتہار کو غیبی اشارہ سمجھا ہے کہ شائد اللہ کو ان کی حاضری منظور نہیں ہے ورنہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں تو اس طرح  کی کبھی پابندی نہیں لگائی گئی۔ اکرم نے بتایا کہ ان کے والد نے رقم ہمسائے میں دو یتیم  بچیوں کے نکاح کے اخراجات کے لئے دینے کا پختہ عزم کر لیا ہے اور مجھے کہا کہ میں جلد از جلد بینک سے وہ رقم نکلوا کر بچیوں تک پہنچا دوں ۔اشتہار میں وزارت کی طرف سے بڑے واضع اور دو ٹوک الفاظ میں یقین  دلایا گیا تھا کہ رضاکارانہ طور پر درخواستیں موخر کرنے والے لوگوں کو آئندہ سال ہر حال میں حج پربھجوایا جایا گا۔پھر شریف قریشی صاحب نے آخر ایک سال انتظار کیوں نہیں کیا۔جہاں اتنے برس وہ حج پر نہ جاسکے اگر ایک برس اور دیر ہوجاتی تو کیا تھا۔اسی ذہنی ادھیڑ بن میں دکان پر گیا۔قریشی صاحب بہت تپاک سے ملے ان کے چہرے پر ایک عجیب طرح کا سکون تھا۔معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہا تو کہنے لگے’ڈاکٹر صاحب میں تو پہلے ہی ستربرس کا ہوچکا ہوں۔اگلے سال تک زندہ بھی رہنا ہے یا نہیں اور کیا علم کہ کعبہ کی توسیع کا کام طوالت اختیار کر جائے ۔لیکن یتیم بچیاں عید کے بعد اپنے گھروں کو چلی جائیں گی۔حج نہ سہی حج کا ثواب تو ملے گا” مجھے یہ جواب سن کر یوں لگا جیسے شریف قریشی صاحب واقعتاً حاجی ہوچکے ہیں اور روضہ رسولۖ سے ان کے لئے تائید آرہی ہے کہ جس شخص نے یتیم کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اس ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے اتنی نیکیاں اس شخص کے حق میں لکھی جائیں گی۔شریف قریشی صاحب حج نہ کرکے مجھ جیسے بڑے بڑے حاجیوں پر سبقت لے گئے ہیں!۔

 

 

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply