Jul
13
|
Click here to View Printed Statement
پہلے رمضان کو سٹوروں پر’پھل فروشوں کے پاس اور دُکانوں پر بے پناہ رش نظر آیا۔ ہر شخص زیادہ سے زیادہ سامان خوردونوش خریدنے میںجُتا ہوا تھا۔ جس کو ایک تھیلے آٹے کی ضرورت تھی اس کی کوشش تھی کہ وہ پورا یوٹیلٹی سٹور ہی اٹھا کر لے جائے۔جسے روزہ افطار کرنے کے لئے چند کھجوریں دکار تھیں وہ بھی کلو سے کم نہیں لے رہا تھا۔ٹماٹر کے بغیر بھی ہنڈیا چڑھائی جاسکتی ہے لیکن ہر خریدار ٹماٹروں کو یوں للچائی ہوئی نظرو سے گھور رہا تھا گویا اسے زندگی بھر یہ سوغات میسر نہ آسکے گی۔ہر کوئی رمضان کے پورے مہینے کی خریداری کر لینا چاہتا تھا۔ غریب اور امیر کے درمیان صرف قوت خرید کا فرق دیکھا ہے باقی ذخیرہ اندوزانہ طرز فکر میں ذرہ برابر فرق محسوس نہیں ہوا۔ماہ صیام کے بارے میں قرآن پاک میں جو حکم ہوتا ہے
وہ تمام اصحاب علم بار بار پڑھتے اور سنتے ہیں لیکن شائد سمجھتے بہت کم ہیں۔ روزہ کا سب سے اول و آخر مُدعا یہی ہے کہ انسان کے اندر تقویٰ آجائے۔ تقویٰ بہت معنی خیز لفظ ہے ‘لیکن جو چند مفہوم میری حقیر سی دانست میں محفوظ ہیں وہ یہی ہیں کہ ایک شخص (مومن) اگر اپنی خواہشات پر قابو نہیں پاسکتا یعنی وہ اپنی لذات کو ضبط کے بندھن میں باندھنے سے قاصر ہے اور صبر کا دامن تھام نہیں سکتا تو وہ متقی ہرگز نہیں بن سکتا۔زیادہ سے زیادہ خریداری اور غیر ضروری خریداری فضول خرچی کے زمرے میں آتی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ روزہ دار کو یقین نہیں کہ کل بھی آنا ہے اور یہ زمین ہر وقت خوراک اگلتی ہے اور گزشتہ گیارہ ماہ سے وہ انتہائی نارمل طریقے سے روزانہ کی خریداری کرتے رہے ہیں۔اشیاء بھی یہیں ہیں ‘دکاندار بھی یہی ہیںاور آپ ہم سب یہیں ہیں پھر آخر کیا سبب ہے کہ رمضان کا چاند نظر آتے ہی ہمارے دل ودماغ پر ایمرجنسی سی نافذ ہوجاتی ہے ۔ہمارے اندر صبر اور ضبط آنے کی بجائے ”جلدی” اور ”جلدبازی”خریداری اور بسیار خریداری کی ہوس جاگ اٹھتی ہے۔ہماری اسی نفسیات کا ذخیرہ اندوز گروہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ کھانے پینے کی اشیاء ذخیرہ کرکے رمضان شروع ہوتے ہی کئی گنا زیادہ قیمتوں پر اشیائے ضروریہ فروخت کردیتے ہیں۔ہم اپی غیر ضروری ایمرجنسی کے ذریعے دراصل معاشرے کے ان ناسوروں کے لئے لوٹ مار کے ذرائع اور راستے پیدا کرتے ہیں۔اگر چینی نہیںمل رہی تو صبر کر لیں چین ضروری ہے۔چینی ضروری نہیں۔یقین جانیں اگر ہم مہنگی چیزوں کو چند روز کے لئے نہ خریدیں تو قیمتیں زمین پر آلگیں گی لیکن ہم چونکہ تقویٰ کے حقیقی معنوں سے بہت دور ہوتے ہیں اس لئے اپنی معمولی لذتوں کو روک نہیں سکتے۔رمضان پورا مہینہ رہے گا۔ اگر ہم کسی لمحے روزے کے بنیادی تقاضے صبر اور ضبط کا مظاہرہ کرسکیں تو یہ اس معاشرے’ اس ملک اور خود اس ماہ مقدس پر بڑا احسان ہوگا۔آج کے کالم میں روزے کے حوالے سے چند دیگر اہم نکات بھی پیش خدمت ہیں۔روزے دار کو پانچ باتیں بار بار اپنے ذہن میں دھراتے رہنا چاہیں ۔یہ کہ وہ اللہ پروردگار عالم کا بندہ ہے’اسے اللہ کی جناب میں ایک دن جوابدہی کے لئے پیش ہونا ہے’ عبادت میں محبت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اس پر لازم ہے’اسے دنیا کی اس امتحان گاہ میں صبر سے کام لینا چاہئے’جس طرح اس نے اللہ کے حکم پر حلال اشیاء مخصوص اوقات کے لئے اپنے اوپر حرام کر لی ہیں اسی طرح ساری زندگی اللہ کے ہر حکم کے سامنے فرمانبردار بن کر رہے گا۔یہ ماہ مقدس واقعتاً انسان کی روحانی اور جسمانی ”اوور ہالنگ” کا شاندار موقع ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ روزہ دار کے ہاتھ’ پائوں’ زبان’ دل اور دماغ سے دوسرے لوگ نقصان نہ اٹھائیں بلکہ اس ماہ میں معاشرہ مجموعی طور پر ”رفاعی معاشرے” کا روپ دھارلے!۔