Jul 14

Click here to View Printed Statement

سٹاک ایکسچینج پھر بلندیوں کو چھو رہی ہے۔کارپوریٹ سیکٹر سرمایہ کاری اور روزگار  کے حوالے سے پرامید ہوچکا ہے ۔نندی پور پاور پراجیکٹ پر دو برسوں سے رکا ہوا کام پھر سے شروع ہورہا ہے۔ریلوے کے سسٹم کی بہتری کے لئے پانچ سو ملین روپے مہیا کردیئے گئے ہیں۔پرائیویٹ بجلی گھروں کو پانچ سو ارب روپے کی ادائیگی کردی گئی ہے۔درجنوں نئی چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کے لئے پاکستان کا رخ کر رہی ہیں۔برطانوی حکومت پنجاب کے اندر تعلیم کے شعبہ میں پائونڈ خرچنا چاہتی ہے۔اور بہت سے منصوبے پائپ لائن میں ہیں اور سب سے بڑی خوشخبری یہ کہ میاں نوازشریف کی حکومت نے بھی پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو جاری رکھنے کانہ صرف عندیہ دیا ہے بلکہ 2014ء تک مکمل کرنے کا عہد بھی دھرایا ہے۔لوڈشیڈنگ کا دورانیہ دھیرے دھیرے کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ کم ہونے کی رفتار بہت ہی کم ہے

اور اگر رفتار یہی رہی تو بقول وفاقی وزیر گیس و بجلی لوڈشیڈنگ پر مکمل طور پر قابو پانے میں تیس سال لگیں گے۔لیکن عوام کو یہ محسوس کرکے حیرت انگیز خوشی ہوئی کہ افطار و سحر کے وقت نوے فیصد علاقوں میں لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی ہے۔حالانکہ ایسے اعلانات گزشتہ آٹھ برسوں میں ہوتے رہے لیکن عملدرآمد نہ ہوسکا۔ یہ توفیق میاں نوازشریف کو ملی کہ کم از کم وہ اپنے اعلان کو سچا ثابت کرپائے۔ہر روز خبریں آتی ہیں کہ بڑے بڑے سکینڈل افشاء ہوتے ہیں۔حالانکہ پی پی پی پی رہی نہ اس کی حکومت لیکن کرپشن کہانیاں نت حیرتیں بکھیرتی ہیں۔عام پاکستانی حیران ہوتا ہے کہ کیا زرداری حکومت کا کام صرف کرپشن’ کرپشن اور کرپشن ہی تھا۔کونسا محکمہ اور کونسی کارپوریشن ایسی ہے جہاں ڈاکہ نہیں پڑا۔جہاں نقب نہیں لگائی گئی ‘ جہاں نوسربازی نہیں ہوئی۔پہلے میرا خیال تھا کہ جناب زرداری کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے نااہل تھے اس وجہ سے ان کی ناک کے نیچے ملک کو لوٹا جاتا رہا اور انہیں خبر نہ ہوئی ۔لیکن اب یہ میرا یقین ہے کہ مسند اقتدار تک پہچنے والے کم و بیش سارے ہی لوگ خائن تھے’ بددیانت تھے اور انتہائی چالاک اور سفاک!مالی کرپشن کرنے والے لوگ معصوم ذہن نہیں ہوتے بلکہ شاطر ذہن ہوتے ہیں۔قارئین! جب کوئی کرپٹ افسر یا سیاستدان یا جرنیل پکڑا جاتا ہے تو عوامی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہوجاتی ہیں۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تمام طبقات اور ادارے کسی نہ کسی لیول کی کرپشن میں ملوث ہیں۔ لیکن دلچسپ پہلو یہ ہے کہ میڈیا’ملٹری اور ملاں انیس بیس کے فرق سے لوٹ مار میں ایک جیسے ہی ملوث ہیں۔پارلیمنٹرین اور پولیس کا درجہ ذرا سا اوپر ہے۔مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ پاکستان جونہی ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھے گا کرپشن کے جن اور بھوت گھات میں بیٹھ جائیں گے اور جوں ہی حکمران ترقی کے تصور سے شاداب ہونے لگیں گے ان کی صفوں میں گھسے کرپٹ مافیا کو لوٹ مار کا موقع مل جائے گا اور بظاہر ملک ترقی کر رہا ہوگا لیکن اندر ہی اندر سے کھوکھلا بھی ہو رہا ہوگا۔یہ ضروری نہیں کہ ہر دور میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل یاپاکستان اکانومی واچ جیسے ادارے حکومتوں کی کرپشن کہانیاں سامنے لائیں تو پھر پکڑ دھکڑ ہو بلکہ احتساب کا ایسا خود کار نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ کاروں اور کاروباری حلقوں کے جڑے اعتماد کو پھر کوئی ٹھیس نہ پہنچا سکے!

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply