Jul
15
|
Click here to View Printed Statement
ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پڑھتے جایئے اور شرماتے جایئے۔ جو لوگ اس رپورٹ کو جعلی ثابت کرنے پر تلے ہیں انہیں شائد معلوم نہیں کہ کمیشن کے سربراہ جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اسے قعطاً جعلی قرار نہیں دیا بلکہ ذرائع ابلاغ سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ مندرجات سے نتیجہ صحیح اخذ نہیںکرپائے۔رپورٹ الجزیرہ ٹی وی نے چلائی اور پاکستانی میڈیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ سیکورٹی اداروں سے وابستہ بااختیار لوگ پہلے حیران ہوئے اور پھرناراض ہوگئے۔کچھ بداندیشوں نے اس کی ”ٹائمنگ” کا سوال اٹھایا اور بعض نے اسے نوازشریف حکومت اور فوج کے درمیان صحیح خلیج بڑھانے کا منصوبہ قرار دیا۔حکومت نے ان خبروں کا بھرپور تاثر لیا اور رپورٹ لیک ہونے کے بارے تحقیقات کا اعلان کیا۔”کس نے کیسے یہ رپورٹ چرائی ہے؟”۔ اس سوچ کے تحت اب کئی ایجنسیاں چھان بین کر رہی ہیں اور بعض لوگ زیرنگرانی آچکے ہیں اور کئی ایک پکڑے بھی جائیں گے۔ یہ کام بھی ہونا چاہیے کہ قومی راز افشا کرنے کا رجحان بہت ہی خطرناک ہوتا ہے۔فرض کیا کہ قومی راز فروخت کرنے والا پکڑا جاتا ہے اور اسے کوئی سزا بھی ہوجاتی ہے تو کیا
اس سے یہ حقیقت تبدیل ہوجائے گی کہ امریکہ نے 2مئی کو ایبٹ آباد شہر میں گھس کر دنیا کے سب سے مطلوب شخص اسامہ بن لادن کو جاں بحق کردیا تھا۔ کیا پکڑنے سے رپورٹ کے مندرجات سے انکار کیا جاسکتا ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ رپورٹ میں بظاہر کسی ادارے یا شخص کا نام لے کر کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا لیکن آئی۔ایس ۔آئی’پولیس’آئی بی اور سب سے بڑھ کر زرداری حکومت کو مکمل طور پر نااہل اور ناکام قرار دیا گیا ہے۔آئی۔ایس۔آئی کے اہلکاروں اور افسروں کے غرور اور تکبر کی نشاندہی کی گئی ہے۔عام پاکستانی تو آج بھی یہ یقین کرنے پر تیار نہیں کہ آئی۔ایس۔آئی جیسی ایجنسی کو پانچ برس تک معلوم ہی نہیں ہوسکاکہ اسامہ بن لادن انہی کے ہاں ”مہمان” بن کر رہ رہا تھا۔ پھر یہ سوال کہ ہیلی کاپٹروں کا شور بھی ہمارے محافظوں کو جگا نہ سکا کس قدر تکلیف دہ ہے اور جو جاگ گئے تھے انہوںنے کسی قسم کا ردعمل ظاہر کرنا ضروری نہ سمجھا۔ سقوط ڈھاکہ سے بھی بڑا سانحہ ہوگیا لیکن کسی ”غیرت مند” نے رضاکارانہ طور پر بھی استعفیٰ دینا مناسب نہ سمجھا۔ صدر’وزیراعظم ‘آرمی چیف کوئی بھی ذمہ دار نہیں تو پھر اس ملک کے دفاع کی ذمہ داری الماس بوبی کھسرے کے حوالے کردی جائے کم از کم وہ ہجڑوں کی جماعت کے ساتھ تالیاں بجا کر ٹھمکا لگا کر دشمن کوحواس باختہ تو کر ہی دے گا۔آئی۔ایس۔آئی کے سابق چیف جنرل (ر) شجاع پاشا کو ریٹائرڈ ہوتے ہی دبئی میں نئی نوکری مل گئی۔ رپورٹ کیسے چوری ہوئی یہ ایک اہم معمہ ہے لیکن رپورٹ جو کہہ رہی ہے اس پر سر جوڑ کر بیٹھنا اور آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کرنا اس سے کہیں ضروری ہے۔ہم جناب میاں محمد نوازشریف سے ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوال کرتے ہیں کہ اگر امریکہ پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہوئے پھر کسی ”ایبٹ آباد” میں چھپے کسی ”الظواہری” کے کمپائونڈ میں اترتا ہے اور وزیراعظم کو اطلاع دی جاتی ہے تو جناب نوازشریف کیا کریں گے؟۔حکومت کو صرف یہی سوال ذہن میں رکھ کر سیکورٹی پلان از سر نو ترتیب دینا چاہیے۔اس رپورٹ میں بہت سے انکشافات ہوچکے ہیں۔فتح اور شکست تو بعد کی بات ہے اگر بغیر مقابلہ کئے ہی ڈھیر ہوجانا ہے تو پھر شیر کی جگہ کسی مناسب جانور کا انتخاب کر لیجئے تاکہ قوم مغالطے میں نہ ماری جائے۔خفیہ اداروں میں کام کرنے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے۔ ان کا ومرال بلند کرنے کے لئے پانچ گھنٹے نہیں پانچ روز ان کے پاس گذاریں کہ وہ سب بھی پاکستانی ہیں لیکن خطاکاروں کو ”تھاپڑا” مت ماریں ورنہ اس سے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشتگردوں کی کھچاروں میں گھستے اور ان کو کیفرکردار تک پہنچاتے ہیں۔ایجنسیوں کے اندر اصلاحات’ میرٹ’کارکردگی کے کڑے معیار کو لاگو کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے۔سول و ملٹری ایجنسیوں کے دائرہ کار کا از سر نو جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔رپورٹ بار بار کہہ رہی ہے کہ جاگ جائو’جاگ جائو۔کیا ہم اب بھی سوئے رہیں گے!!