Jul
17
|
Click here to View Printed Statement
جب اپنے وطن میں روٹی روزی کے ذرائع محدود اور بے روزگاری لامحدود ہوجائے تو پھر دیارِ غیر جا کر قسمت آزمائی کرنی چاہیے۔ ہجرت تجارت کی غرض سے ہو یا تعلیم کی غایت سے ہو۔ یہ ابن بطوطہ کا سفر ہو یا کولمبس کی سمندر پیمائی ہو’ہجرت کی کلفتیں اورمصیبتیں اپنی جگہ مگر اس کے نتیجے میں بہتری ضرور آتی ہے۔اپنے مالی حالات بہتر بنانے کے لئے ہم گائوں سے شہر اور شہر سے دوسرے شہر ہجرتیں کرتے ہیں۔اسی کے نتیجے میں نئی نئی آبادیاں جنم لیتی ہیں۔ایک دوسرے کی زبانیں سمجھتے ہیں’ایک دوسرے کے رہن سہن اپناتے اور ہنرمندی کو سیکھتے ہیں۔عربی کا محاورہ ہے ”سفر ایک زحمت ہے” لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ”سفر وسیلہ ظفر” بھی ہوتا ہے ۔دونوں محاوروں کا مشترکہ مفہوم یہ کہ ہجرت جدائی اور سفر کی مشکلات اگر برداشت کر لی جائیں تو پھر کامیابی مل جاتی ہے۔رزق کی تلاش میں اس کرہ ارضی پر چلنے پھرنے کا قرآن نے باقاعدہ حکم بھی دیا ہے۔
ہجرت کوئی آسان کام نہیں ہے۔خصوصاً جب آپ رزق کی تلاش میں اپنے پیاروں کو امیدوں کے سہارے چھوڑ کر دیارغیر جابستے ہیں تو جدائی کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔ہمارے ایک کروڑ کے لگ بھگ بھائی اور بیٹے جو ”تارکین وطن” کہلاتے ہیں بسلسلہ روزگار تارک وطن ہوچکے ہیں۔وہ یورپ’ امریکہ’جاپان اور گلف میں ہر طرح کی مزدوری کرتے اور خدمات انجام دیتے ہیں۔جو اٹھارہ بیس برس کی عمر میں وہاں پہنچے تھے واپسی کی خواہش پر وہیں بوڑھے ہوگئے۔ا ن کے بیٹے بھی وہیں ان کے پاس گئے اور اب وہ بھی بڑھاپے کو پہنچ رہے ہیں۔دونسلوں کو دیارِ غیر کی مٹی چاٹ چُکی ہے۔ ان پاکستانیوں میں سے اکثر جان پر کھیل کر یورپ پہنچے۔بعض تو راستے میں ہی گھائل کر دیئے گئے اور بعض عرصہ دراز تک روپوش رہے۔بیروزگاری ‘غربت اور مہنگائی کے ستائے ہوئے ہمارے گھبر و جوان ”تارک” ہونے کے لئے کیا کیا”تج”کر گئے۔آج پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جن کی افرادی قوت نے دنیا بھر میں اپنی محنت اور صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہ لوگ پاکستان چھوڑکر گئے کہ بھوک ان کے تعاقب میں تھی۔لیکن جوں ہی انہیں پیٹ بھر کر کھانا ملا تو سب سے پہلے انہوں نے پیچھے کی طرف دیکھا۔ اپنی مزدوری’تنخواہ اور منافع سب کچھ پاکستان بھجوایا ہے اور آج ان کی بجھوائے جانے والی رقوم کا حجم ساڑھے تیرا ارب ڈالرز سالانہ تک جا پہنچا ہے۔گزشتہ دنوں سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی ”الاقتصادیہ” کے نمائندے اور پاکستانی معیشت پر گہری نگاہ ر رکھنے والے حیطم ناصر اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے انٹرویو کرنے میرے آفس تشریف لائے۔انہوں نے پوچھا”’اوورسیز پاکستانی جو رقومات بھجواتے ہیں ان کی پاکستانی معیشت کے لئے کیا اہمیت ہے”۔ میں نے ”الاقتصادیہ” کے نمائندے کوجواب دیا”’بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاب زر کے طفیل ہی ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو سانس لینے کا موقعہ مل رہا ہے۔اگر ساڑھے تیرہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہر سال پاکستانی معیشت کو آکسیجن کا یہ ٹیکہ نہ لگتا تو ہم کب کے ڈیفالٹ کرچکے ہوتے۔اوورسیز پاکستانی بیرون ممالک سے ڈالرز’ریال اور درہم بھجواتے ہیں اور حکومت ان سے غیر ملکی کرنسی لے کر انہیں پاکستانی روپے دے دیتی ہے۔اس طرح ہمارے زرمبادلہ کا حجم پھول جاتا ہے”۔”الاقتصادیہ” کا اگلا سوال سعودی عرب میں پھنسے غیر قانونی پاکستانیوں کو تین ماہ کی اضافی مدت کے حوالے سے تھا۔جس کے جواب میں راقم نے کہا ”سعودی عرب کی حکومت نے پاکستان سے اپنی غیر مشروط محبت کا ثبوت دیا ہے۔ اب پاکستانیوں کو چاہیے کہ اگر ان کے کاغذات مکمل نہیں تو وہ رضاکارانہ طور پر واپس آجائیں۔میزبان ملک کے قوانین کا احترام بہرطور لازمی ہے۔”قارئین !یہ ایک ضمنی سا تذکرہ آگیا ہے۔اصل بات یہ کہ جو پاکستانی رزق کی تلاش میں بیرون ملک ہجرت کر گئے ہیں انہیں ”تارکین وطن” کہنا بہت بڑی زیادتی ہے۔پاکستان سے دور ہوتے بھی انہوں نے اس دھرتی کو ”ترک” نہیں کیا۔ وہ اپنی ساری بچتیں اور ساری محبتیں پاکستان پر نچھاور کر رہے ہیں۔ان کی اس عظمت کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔جن ہاتھوں نے اپنے’اپنے گھر والوں اور اپنے ہم وطنوں کے لئے رزق اور خوشحالی کے لئے کام کیا’ ان ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہیے۔