Aug
20
|
Click here to View Printed Statement
عقل محو تماشاہی رہی اور عشق نے چھلانگ لگا دی۔ دانش مندی اور معاملہ فہمی کا تقاضا تو یہی تھا کہ ایک غیر تربیت یافتہ’جسمانی طور پر ان فٹ اور اسلحہ کے اعتبار سے مکمل طور پرنہتا شخص ایک مسلح’بپھرے ہوئے اور مرنے مارنے پر تلے بیٹھے پاگل کو قابو کرنے کی کوشش نہ کرتا بلکہ ایسا سوچنا بھی حماقت کے زمرے میں آتا ہے۔ عقلمندوں کے نزدیک کوئی احمق آدمی جس کوجان بوجھ کر اپنی جان ضائع کرنے کا شوق ہو وہی ایسی حرکت کرسکتا ہے۔
اگر خدانخواستہ سکندر نامی پاگل کی گولی زمرد خان کو لگ جاتی اور اس کے نتیجے میںخان صاحب کو جانی نقصان ہوجاتا تو پاکستانی قوم کو مایوسی کے سوا کیا ملتا۔ یہ سارے دلائل اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں۔لیکن مملکت پاکستان کو دہشتگردوں اور مسلح پاگلوں نے جس طرح آگے لگا رکھا ہے اور عقل مند ان کے مقابلے پر بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ایسی صورت میں عام پاکستانی کا دل دُکھتا بلکہ خون کے آنسو روتا ہے۔ پندرہ اگست کی رات بلیو ایریا کے چائنا چوک پر حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے ایک حواس باختہ درندے اور اس کی شاطر بیوی نے جس طرح دارالحکومت کی اعصابی فضاء کو اپنے قابو میں جکڑے رکھا اس پانچ گھنٹے کے اعصاب شکن منظر کو دیکھ دیکھ کر لوگوں کے اندر غصے اور حیرت کے جذبات بھڑکتے رہے۔ ٹی وی چینلز کا کردار تو ہمیشہ منفی ہی رہتا ہے۔ لیکن اس رات منفیت کی آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میڈیا نے اس پاگل کو پانچ گھنٹے تک تحفظ فراہم کئے رکھا۔ پولیس کو کوئی کارروائی کرنے کے لئے موقع ہی نہیں دیا گیا۔گولی کی پہنچ چار سو میٹر تک کارگر ہوتی ہے اور میڈیا کی فوج ظفر موج پاگل کے قریب تر ہونے کے لئے بضد رہی اور پولیس بیچاری کو ہاتھا پائی پر مجبور کردیا۔پولیس کی اپنی حکمت عملی تھی وہ اپنے ٹارگٹ کو اعصابی طور پر مجروح کرنا چاہتی تھی لیکن ذرائع ابلاغ کے طعنوں’اور اشتعال انگیزیوں کے سامنے سیکورٹی ادارے بے بس ہوگئے تھے۔اسلام آباد کے شہری بھی تماشا دیکھنے موقع پر موجود تھے۔پیپلزپارٹی کے رہنما جناب زمرد خان جو جوانی میں اسلحہ چلانے کے ماہر بتائے جاتے ہیں وہ ہمیشہ سے بہادر تھے۔لیکن پولیس کو انہوں نے اپنی آمد کا جو مقصد بتایا وہ یہی تھاکہ ”پاگل ”کو اس کے بچوں کا واسطہ دے کر ہتھیار ڈالنے پر قائل کردیا جائے۔پولیس نے ”پاگل” کی بیوی کے ذریعے جناب زمرد خان کا تعارف کروایا اور جب ”پاگل” بات چیت پر آمادہ ہوگیا تو جناب زمرد خان مذاکرات کے لئے اس کے پاس چلے گئے۔اور پھر اچانک جو ہوا وہ عقل کو دنگ کردینے والا منظر تھا۔پاکستان کو زخمی کرنے والے دہشتگرد پاگلوں اور پاگل دہشتگردوں کو یہ احساس ہوگیا ہوگا کہ پاکستانی قوم میں زمرد خان بھی ہوتے ہیں جن کی قومی غیرت کو گوارا نہیں کہ کوئی اسلحہ کے زور پر شہر اور ملک کو یرغمال بنائے اور یہ نڈرلوگ نتائج کی پرواہ کئے بغیر مسلح ہاتھوں کو مروڑ سکتے ہیں۔اگر زمردخان اس پاگل پر نہ چھپٹتا تو بھی پولیس گھٹنے بھر کے بعد آپریشن پر گزرتی لیکن زمرد خان کی ”ادا” ایک ریفرنس بن گئی۔ہماری ڈوبتی قومی حمیت کو زمردخان کی ہمت نے سہارا دے ڈالا۔جو معرکے عقل اور حقیقت پسندی سے سرنہ ہو رہے ہوں انہیں سر پھرے لوگ ہی سر کرتے ہیں۔ عقل مندوں کی دنیا چاہے زمرد خان کے اس عمل کو احمقانہ عمل قرار دیتی رہے لیکن دھڑکتے دلوں کی آواز زمرد خان کے ساتھ دھڑکتی رہے گی۔ پاکستان کے حالات کا تقاضا ہی یہی ہے کہ جنون’عشق اور جذبے والے چند سرپھرے لوگ آگے بڑھیں اور قوم کو حوصلہ فراہم کریں ۔بہادری حکمت پر غالب آئی۔زمرد خان کو کسی اعزاز کی نہیں فقط دعائوں کی ضرورت ہے اورملک کو چند زمردخانوں کی ضرورت !۔