Aug
26
|
Click here to View Printed Statement
سیاستدانوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میںدل کھول کر ایک دوسرے کی دُرگت بنائی ہے۔تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وزیر داخلہ نے اپوزیشن کو جواب آں غزل جو سنائی تو ذرائع ابلاغ بھی عش عش کر اٹھے۔ سکندر بمقالہ زمرد کے نت نئے پہلو سامنے آچکے ہیں جن میں سے بعض دلچسپ’کچھ حسرتناک اور چند عبرتناک بھی ہیں۔ اس واقعہ سے کون کیا سیکھتا ہے۔ یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔بہرحال عوام جو کہ تماشبین ثابت ہوئے۔ پولیس جو کہ نااہل ثابت ہوئی ‘میڈیا جو کہ غیر ذمہ دارثابت ہوا اور حکمران جو کہ متذبذب ثابت ہوئے۔ اگر چاہیں تو اپنی اپنی حدود میں رہ کر خود احتسابی کا عمل مکمل کرسکتے ہیں اور یوں ہم آنے والے اس نوعیت کے حادثوں میں مناسب ردعمل کے اظہار کا سلیقہ سیکھ سکتے ہیں ۔
لیکن اگر مقصد ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور پوائنٹ سکورنگ ہو تو پھر سکندر آئندہ بھی یوں ہی آتے رہیں گے اور زمردخان بھی ایسے ہی پیدا ہوتے رہیں گے۔سکندر شو سے متعلقہ تمام اداروں اورافراد کے منہ میں زبان ہے اور وہ بڑے دھڑلے کے ساتھ اپنا اپنا مئوقف لوگوں تک پہنچا رہے ہیں لیکن اس شو کے اصل فریق جس کی کھچائی کے لئے ہر کوئی ادھارکھائے بیٹھا ہے’اس کی کوئی سنتا ہے نہ ہی سننے دیتا ہے۔اگر پولیس کو سٹن گن چلانا نہیں آتی تو اس پر تضحیک آمیز انداز میں قہقے لگانے کا کیا جواز ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری پولیس کو حکومت مخالف پارٹیوں کو دبانے اور جلسہ گاہوں کی رونقیں بڑھانے کے لئے بھرتی کیا جاتا ہے۔ کس دور میں کب کسی نے اس پولیس سے کہا ہے کہ آپ کا فرض جدید کرائم کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔ آپ پولیس کی تمام اکیڈمیوںکا ریکارڈ نکلوا کر دیکھ لیجئے۔ وہاں ”سٹن گن” کا ذکر تک نہیں ہوگا۔ جب پولیس کو ”سکندر شو” جیسے واقعات سے نپٹنے کی کوئی ٹریننگ ہی نہیں دی گئی تو پھر پولیس پر قہقے لگانے سے پہلے خود اپنی سوچ ‘مزاج اورسیاسی ترجیحات پر بے رحم قہقہ لگایئے۔آپ کیکر کے درخت سے آم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ حکمران طبقے کا دماغی فتور ہے پولیس کا قصور نہیں۔اگر بعض پولیس افسران نے جناب زمرد خان کو سکندر تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا ہے تو اس کے پیچھے بھی پولیس کی نفسیات میں بھرتی سے لے کر پروموشن تک شخصی اور سیاسی تعلقات کی اہمیت کارفرما ہے۔ پولیس کو عوام کے جان و مال کے تحفظ کی بجائے مختلف شخصیات کی چاپلوسی کی راہ کس نے دکھلائی ہے۔پولیس کو کس نے حکومتی اثر سے پاک رکھنے کی کوشش کی ہے۔سب حکمران اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔انشاء اللہ مایوسی ہوگی۔پولیس سے یہ توقع کرنا کہ وہ ”آئی ٹی ایکسپرٹ” کے طور پر بھی کام کریں گے’ بالکل عبث ہے ۔ جس ایس ایچ او کو عام کمپیوٹر چلانا نہیں آتا وہ القاعدہ کے نیٹ ورک میں کیسے گھس جائے گا۔ آن لائن ایف آئی آر کے پروگرام کا حشر یہ ہورہا ہے کہ سینئر پولیس افسران اپنے ”ڈیکسٹاپ” کھول کر آن لائن ڈیٹا دیکھنے کی بجائے ہر وقت پرنٹ حاصل کررہے ہوتے ہیں۔مجھے کینٹ کے ایک تھانے میں ایک سال قبل کسی مظلوم کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں ایک سائل محرر صاحب کو اے ٹی ایم کارڈ چرائے جانے کی شکایت کر رہے تھے اور جناب محرر باربار پوچھتے تھے”ایس کارڈ نال کی کردے او”۔جہاں آئی ٹی سے واقفیت کا یہ عالم ہو وہاں جدید طرز کے کرائم کو یہ پولیس تو کنٹرول نہیں کرسکتی۔ پولیس کی جدید خطوط پر تربیت کے بڑے دعوے سامنے آئے لیکن عملاً معاملہ جوں کا توں ہے۔پولیس پرگرجنے اور برسنے سے پہلے ان کی تربیت کا مناسب بندوبست کیجئے۔ ان کے مالی معاملات کو باعزت بنایئے۔ ان کے ڈیوٹی اوقات کو انسانی حدود میں لایئے اور پھر ان سے نتائج کی توقع کیجئے۔ اور کچھ بھی نہ کریں تو کم از کم پولیس والوں کا مئوقف تو ضرور سن لیا کریں ۔یکطرفہ رگڑا مزید شرمندگیوں کو جنم دے سکتا ہے۔ پولیس سے نفرت نہیں۔پولیس کی عزت کیجئے اس سے آپ کی اپنی عزت میں اضافہ ہوگا۔