Sep
06
|
Click here to View Printed Statement
ہر پاکستانی خوف زدہ ہے ۔انجانے خوف نے دل ودماغ پر قبضہ جما رکھا ہے۔ جو ہے وہ چھن جانے کا خوف‘ راہ چلتے لٹ جانے کا خوف‘ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں قتل ہوجانے کا خوف‘بھتہ خوروں کی باہمی چپقلش کا شکار ہوجانے کا خوف‘کسی خودکش دھماکے میںہلاک ہوجانے کا ڈر‘دشمن کے حملے کا کھٹکا‘غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں رسوائی کا عفریت‘عزتوں کی پامالی کا دھچکا‘اولاد کے اغواءہوجانے کا احتمال۔ کسی مفتی کے ہاتھوں کنگال ہوجانے کی فکر۔جو خوشحال ہیں انہیں بدحال ہوجانے کا وسوسہ‘جو بااختیار ہیں انہیں بے اختیارہوجانے کے خدشات۔ کون ہے جو اس خوف سے بچا ہوا ہے۔رات پہلو بدلتے گزرتی ہے کہ ابھی ڈاکو گھس آئیں گے اور دولت لوٹیں گے۔ایسا خوف جو ہر روز بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا۔یہ بستی چھوڑ جانے کو عقل اکساتی ہے۔
ایک دل ہے جو پاکستان کے لئے دھڑکتا ہے۔ ایئرپورٹ پر انٹرنیشنل فلائٹس چیک کریں۔ ہر روز سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ ڈالروں سمیت بیرون ملک فرار ہورہے ہیں۔ملک چھوڑ کر بھاگنے والوں کو کسی دلیل سے روکنا ممکن ہی نہیں ۔سمجھ دار وہی ٹھہرے ہیں جو خود اگر دوہری شہریت حاصل نہیں بھی کرسکے تو کم از کم اپنے بچوں کے لئے انہوں نے یہ سہولت حاصل کر رکھی ہے۔یہ ملک صرف لٹیروں اورلٹنے والوں کے لئے رہ گیا ہے۔یا پھرغریب ووٹ ڈالیں اور سیاستدان ان پر حکومت کریں۔تارکین وطن بھی اپنے بڑھاپے میں حکمرانی کا چسکا پورا کرنے پاکستان آسکتے ہیں اور وزیراعظم اورگورنر وغیرہ بن سکتے ہیں۔کراچی جل رہا ہے ۔کراچی قتل گاہ ہے۔ کراچی کرائم سٹی بن گیا ہے۔کراچی کی بات ہی کیا یہاں تو اسلام آباد جیسے شہر میں بھتہ خوروں کے درجنوں گروہ برسرپیکار ہیں۔طالبان نے تو بھتہ خوری کو باقاعدہ انڈسٹری کی شکل دے دی ہے اور انہوں نے اس صنعت سے ہونے والی آمدن کو ریگولیٹ کرنے کے لئے چارٹرڈ اکاﺅنٹینٹس بھی رکھ لئے ہیں۔بھتہ خوری متبادل معیشت کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ایماندار کاروباری‘اگر کہیں ہیں تو سوچنے لگے ہیں کہ حکومت کو ٹیکس دینا بہتر ہے یا طالبان کو بھتہ دینا زیادہ اچھا ہے۔ لوگوںکو اب یہ شکایت کرنے کی جرات نہیں وہ تو ٹیکس اور بھتہ دونوںادا کرنے پر آمادہ ہیں انہیں صرف جان کی امان مل جائے لیکن یہی امان تو وہ جنس ہے جو آج قائداعظمؒ کے اس پاکستان میں نایاب ہوتی جارہی ہے۔لوگ لمحہ بھر کے لئے سوچیں کہ پاکستان جس حالت خوف میں ہے‘اسے کیا کہتے ہیں؟ آخر عذاب اور کس کو کہتے ہیں۔کیا یہ خوف عذاب الٰہی نہیں ہے۔کیا اللہ تعالیٰ کی ذات ہم پاکستانیوں سے اس قدر نالاں ہوگئی ہے کہ اس نے بیس کروڑ مسلمانوں کو چند ظالم گروہوں کے سامنے بے بس کردیا ہے۔اتنی بڑی منظم اور مسلح فوج‘ خفیہ ایجنسیاں‘پنجاب پولیس جیسی پولیس‘ آئی ٹی کی جدید ترین سہولتیں۔سب کچھ ہوتے ہوئے ہم خوف کی اس حالت سے باہر نہیں آپارہے اور ہمارے حزن میں روز بروز اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ پہچانیئے کہ یہ عذاب الٰہی تو نہیں ہے۔کہیں ہم بحیثیت مجموعی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واضح احکامات کی صریحاً خلاف ورزی بلکہ بغاوت کے مرتکب تو نہیں ہورہے۔جب تک ہم اپنے پورے شعور کے ساتھ اپنے کرتوتوں سے تائب نہیں ہوتے اور اللہ کی طے کردہ حدود کے اندر رہ کر زندگی گزارنے کے عہد نہیں کرتے ہم کبھی اس خوف سے باہر نہیں آسکیں گے۔ کوئی لیڈر‘کوئی دانشور‘کوئی مذہبی عالم ہمیں اس عذاب سے نجات نہیں دلا سکتا۔ ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پہچاننا ہوگا اوراللہ کی اس نافرمانی کو ترک کرنا ہوگا۔قرآن حکیم قوموں کی زندگی میں خوف کو عذاب سے تعبیر کرتا ہے۔ ہمیں قرآنی وارننگز کو سامنے رکھنا ہوگا۔