Sep
09
|
Click here to View Printed Statement
قارئین اکرام! میں آپ سے دست بستہ پہلے تو معافی مانگتا ہوں۔میں نے مسلم لیگ (ن) کے انتخابی نعروں اور وعدوں سے متاثر ہو کر ”خوشخبریاں آنے لگیں“ کے عنوان سے کالم لکھا اور اپنے طور پر یقین کر لیا تھا کہ اب عوام الناس کی معاشی حالت بہتر ہوجائے گی۔لیکن گزشتہ دنوں کے پے در پے ایسے حکومتی اقدامات سامنے آئے ہیں کہ مجھے اپنے لکھے ہوئے لفظوں پر شرمندگی ہورہی ہے اور میں ایک بار پھر سے ”حقیقت پسندی“ کی پرخار وادیوں میں الجھ گیا ہوں۔پنجاب فورم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کی طرز پر پاکستان میں بھی غرباءکے لئے فوڈ سیکورٹی بل پارلیمنٹ میں لایا جائے اور غریبوں کے لئے سستی دال روٹی کا قانون بنا دیا جائے۔ میں نے اخبارات میں شائع ہونے والی یہ خبر پڑھی تو مجھے سخت افسوس ہوا۔آج پاکستان کے اقتصادی حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں
کہ روٹی جیسی عام خوراک بھی عام پاکستانیوں کی دسترس سے باہر ہوگئی ہے۔کبھی یہی پنجاب تھا جو پورے متحدہ ہندوستان کو خوراک فراہم کرتا تھا اور پاکستان بننے سے لے کر دو چار ماہ قبل تک کم از کم روٹی کی قیمتیں کنٹرول میں تھیں ۔لیکن آخر یہ کونسی معاشی مہارت ہے جس کے نتیجے میں روٹی کی قیمت ہی کنٹرول میں نہیں آرہی۔زمین اپنی‘ پانی اپنا‘ کھاد کے کارخانے اپنے‘کھاد کے لئے استعمال ہونے والی گیس اپنی‘تندور ٹیکنالوجی اپنی‘ تندورچی اپنے‘ گندم کو آٹے میں تبدیل کرنے والی ملیں بھی پاکستان میں ہی بنتی ہیں۔آخر کیا وجوہات ہیں کہ ہماری اپنی روٹی بھی ہمارا ساتھ نبھانے پر تیار نہیں۔روٹی کا سرکاری طور پر طے کیا گیا وزن ایک سو بیس گرام ہے۔ اور شریف برادران کی حکومت سے قبل یہ روٹی چار یا پانچ روپے میں مل جاتی تھی۔ اب روٹی کا وزن ستر گرام کردیا گیا ہے لیکن قیمت آٹھ روپے تک پہنچ گئی ہے۔خیبرپختونخواہ میں بیس روپے تک روٹی فروخت ہورہی ہے۔آخر کونسی آفت آگئی ہے کہ موجودہ حکومت کے معاشی ماہرین پاکستانیوں کی بنیادی خوراک کو بھی چھین رہے ہیں ۔یہ بات سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ سات افراد پر مشتمل کنبہ اگر فی کس روزانہ چار روٹیاں کھاتا ہے تو روزانہ کی کتنی رقم صرف روٹی پر خرچ ہوگی اور ماہانہ ایک کنبے کو چھ ہزار یا دس ہزار روپے میں کس طرح روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کا سلیقہ آئے گا۔ورلڈ بینک اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے اپنے تازہ سروے میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی پہلے ہی کم خوراکی کا شکار ہے۔ صوبہ سندھ‘بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں خوراک کی بدترین صورتحال ہے۔ان صوبوں کے دیہی علاقوں میں مفلوک الحال عوام کو دور سے دیکھیں‘ لگتا ہے ایتھوپیا میں آگئے ہیں۔ایک زرعی ملک کی یہ حالت ہے کہ ماﺅں کو اپنے حصے کی روٹی اپنے بچوں کو دینا پڑ رہی ہے تاکہ بچوں کو کم از کم پیٹ بھر کر کھانا میسر آسکے۔جنوبی پنجاب کے حالات بھی بھوک زدہ ہیں۔ اب جو مہنگائی کا ایک تازہ طوفان ہماری بستیوں میں آیا ہے۔ تو اس کا نتیجہ بھوک سے اموات کی صورت میں نکل رہا ہے۔ سفیدپوش تو بجلی اور گیس کے بل ادا کرتے کرتے ”پھانک“ ہونے والے ہیں‘لیکن جھونپڑیوں اور کچے گھروں میں زندگی گزارنے والے اپنی ہاتھوں سے بوئی جانے والی گندم کی بالیوں کو چھونہیں سکیں گے کہ روٹی کی قیمت بڑھتے بڑھتے امریکہ جتنی ہوجائے گی۔ آمدن صفر اور خوراک کی قیمت نیویارک جیسی! یہ کیسا معاشی انقلاب ہے!وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب بھی گندم کی روٹی کھا کر ہی بڑے ہوئے اور ایک بار پھر وزیرخزانہ بن گئے۔انہوں نے قوم کو خوشخبری دی ہے کہ ڈالروں کی بارش شروع ہوگئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو پاکستان کی معاشی اصلاحات پر اعتماد آگیا ہے۔ ڈار صاحب کی ہر خوشخبری عوام کے لئے نیا ڈر لے کر آتی ہے۔دنیا بھر میں خوراک‘ بجلی اور گیس کی فراہمی پر حکومتیں سبسڈی دیتی ہیں ورنہ حکومتوں کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔لیکن ہمارے وزیر خزانہ ”سبسڈی“ والی لعنت سے قوم کو نجات دلانا چاہتے ہیں اور آئی ایم ایف کے منافع کو یقینی بنانے کے لئے دال روٹی کی قیمت بڑھائے جارہے ہیں۔جو غریبوں کے منہ سے نوالے چھینتے ہیں وہ ڈار نہیں صرف ڈر ہوتے ہیں اور ڈر اور خوف قوموں کو اٹھاتا نہیں بلکہ نفسیاتی اور جسمانی طور پر بیمار کر دیتا ہے۔ بیس کروڑ افراد میں سے اٹھارہ کروڑ بھوکے پاکستانیوں کا بوجھ ڈار صاحب کے کندھوں پر ہے!