Sep 19

Click here to View Printed Statement

بھارت میں عورت ذات پر حملوں کی خبریں سُن سُن کر کان پک گئے تھے۔ہرصاحب دل اور ضمیر جب عصمت دری کی خبریں سنتا ہے تو خون کے آنسو روتا ہے۔ آدمیت جہاں ہے وہ شیطانیت کیخلاف آواز بلند کرتی ہے۔ حیوانوں کے غول کسی حوا زادی کی عصمت کی چادر بمبئی میں تار تار کریں یا کسی معصوم دوشیزہ پر انگلینڈ میں حملہ ہوجائے خون کھولتا اور دل مجرموں کو سرعام پھانسی لگتے دیکھنا چاہتا ہے۔اسلام نے تو درندوں کے معاشرے میں عورت کو تقدس کی چادر اوڑھانے کا انقلابی کارنامہ سرانجام دیا اور آج جب کہ ایمان کا درجہ قرون اولیٰ والا نہیں پھر بھی عورت کیخلاف ہر جرم اور زیادتی کو بحیثیت مجموعی مسلمان نفرت اور حقارت سے دیکھتے ہےں۔

مسلمان معاشروں میں سوائے چند مادرپدر آزاد خواتین اور ان کے دم قدم سے دندناتی ہوئی این جی اوز عورت کو حجاب‘شرم اور تقدس سے محروم کرنا چاہتی ہیں لیکن پوری امت اس بات پر متفق ہے کہ عورت ماں ‘ بہن‘ بیٹی‘بہو اور بیوی کے روپ میں مردوں کی نسبت کہیں زیادہ بارعب‘بااختیار اور قابل احترام ہستی ہے۔ ان مقدس رشتوں کو کوئی شیطان یا انسان کے روپ میں چھپا حیوان اگر روندنا چاہے تو اسلام نے ایسے ناسوروں کیلئے دنیا میں سخت ترین سزائیں رکھی ہیں اور قیامت میں ان کے لئے دہکتی ہوئی آگ ہے۔ہم مطمئن تھے کہ کم از کم پاکستان میںسوائے اکا دُکا واقعات کے معاشرہ عورت کے احترام کا غماض ہے۔بھارت میں چونکہ ریاست اور مذہب دونوں اس معاملے میں بہت کاہل ہیں اس لئے وہاں پے در پے ایسے واقعات کی سمجھ آسکتی ہے لیکن پاکستان میں اس طرح کے خوفناک اور مہیب مناظر سمجھ سے بالاتر ہیں۔ایک ایسا ملک جس میں ہر وقت اللہ‘ رسول کا نام لیا جاتا ہو‘ہر وقت قرآن کی تلاوت ہورہی ہوتی ہے اور عورت کے حقوق پر عمدہ قوانین موجود ہیں وہاں درندگی اور شیطنیت کا کھیل کیوں کر جاری ہے۔ننھی بچی کی چیخیںپاکستانیوں کے دل و دماغ میں آج بھی کچوکے لگا رہی ہیں ۔تصور کرکے ہی دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ہر صاحب اولاد سمجھتا ہے جیسے اس کی وہ اپنی بیٹی ہے۔اسلام جہاں ایسے قبیح جرائم میں ملوث درندوں کو شدید ترین سزاﺅں کا حکم دیتا ہے وہاں وہ جرائم کی تشہیر کو بھی روکتا ہے۔ لیکن جب سے پاکستانی معاشرہ آزاد میڈیا کے ہاتھوں یرغمال بنا ہے ‘ دہرے عذاب نے گھیر لیا ہے۔ ہمارے ٹی وی چینلز نے اس پانچ سالہ معصومہ کو بھی نہیں بخشا۔ اس کے بدنصیب والدین کی تصویریں ‘اس نیم بے ہوش بچی کی تصویریں ‘ اس واقعہ کو جس طرح نمک مرچ لگا کر ‘ اس کی جزئیات کو ہماری آنکھوں میں اتارا ہے اسی سے یوں لگتا ہے کہ ہمارا اجتماعی شعور ہی گمراہ ہوگیا ہے۔ننھی مجروحہ سب کی بچی ہے۔اخبارات نے اپنی سرکولیشن بڑھانے کے لئے نہ صرف یہ کہ فرنٹ پیج پر اس غریب کی تصاویر شائع کیں بلکہ اسی سے ملتے جلتے حادثات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نمایاں کیا۔ یہ کیسی لذت صحافت ہے جو شیطانوں کو گلیمرائز کرتی ہے۔یہ ٹی وی کیمرے‘یہ فوٹوگرافر‘یہ کرائم رپورٹرز کیا انہوں نے خدا کو جان نہیں دینی۔اگر ان کی سٹوری نہیں اٹھے گی تو کیا ہوگا‘یہ دنیا سے تو نہیں اٹھائے جارہے۔اللہ نہ کرے کل اپنی کوئی عزیزہ کسی شیطان کے ہتھے چڑھ جائے‘یا کوئی بدنصیب رشتہ دارعورت کسی دھندے میں پکڑی جائے تو کیا یہ سب کچھ ہوگا جو ایک غیرت مند خاندان کے ساتھ کیا گیا ہے۔وہ بچی جوان ہوگی تو اس کے پاس سوائے خودکشی کے کون سا راستہ چھوڑا گیا ہے۔خاکم بدہن! لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ نے مجرموںکو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہر اقدام اور موومنٹ سے آگاہ رکھا۔ وہ یقیناً ٹی وی دیکھ کر اپنی پوزیشنیں تبدیل کرتے رہے ہوں گے۔عام ناظرین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آج کا ہمارا آزاد میڈیا مجرموں کے ساتھ ہے یا مظلوموں کاساتھی۔ ہر جرم ٹی وی سکرین پر دکھایا نہیں جاسکتا۔ امریکہ یورپ اور مبینہ مہذب ممالک میں ایسے جرائم کو اندر کے صفحات پر لے جاتے ہیں اور ایسی خبریں بچوں کے سونے کے بعدنشر کی جاتی ہیں۔لیکن یہاں تو بریکنگ نیوز کی دوڑ نے ہر اخلاقی حد پھلانگ دی ہے ۔سول سوسائٹی میں اگر کچھ بھی شرم ہے تو وہ اس منہ زور اور حیوانی قسم کے میڈیا کیخلاف صف آراءہوجائے ورنہ یہ ہر گھر میں گھس کر خوف اور دہشت پھیلا دے گا۔ لوگ اپنے بچوں سے اخبار چھپاتے پھرتے اور خبرناموں کے سوئچ تبدیل کرتے تھک گئے ہیں ۔کوئی ہے جو اس خوش رہنے والی قوم کو میڈیائی درندوں سے نجات دلائے۔اگر اپر دیر کی شہادتوں کی خبریں نہ آتیں تو ہم آج بھی اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والی درندگی کے مناظر دیکھ رہے ہوتے۔درندوں کو سزا ملنی چاہیے اور انہیں چیرپھاڑ کر رکھ دینا چاہیے۔ لیکن درندگی کے پروموٹرز کا بھی ہاتھ روکنا ضروری ہوگیا ہے۔اللہ پاک کا حکم ہے‘”نیکی اور پرہیز گاری کے کامو ں میں تعاون کرو اور برائی اور گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کرو“

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply