Sep
23
|
Click here to View Printed Statement
پاکستان میں معاشی لحاظ سے کتنے طبقات ہیں اس بارے کوئی تازہ سروے تو موجود نہیں ہے لیکن اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو شہر ‘ گلی اور محلے میں ہمیں یہ طبقات مجسم صورت میں دکھائی دیں گے۔ایک پورا طبقہ ان خاندانوں پر مشتمل ہے جو پیشہ ور بھکاری ہیں یا ان کے پاس بھیک مانگنے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں ہے۔بھکاریوں کے جتھے آپ کو پاکستان کے ہر چوک اور چوراہے میں مل جائیں گے۔ بلکہ کسی مذہبی یا قومی تہوار کے دنوں میں مانگنے والوں سے جان چھڑانا ہی بہت بڑی انجوائے منٹ ہوتی ہے۔آپ بھکاریوں کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں ۔آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اس پیشہ یا مجبوری سے منسلک تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ یہ لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں پہنچ رہے ہیں ۔دوسرا طبقہ فاقہ مست دیہاڑی دار مزدوروں اور ہنرمندوں کا ہے۔مزدور مانگ تو نہیں سکتے لیکن ملک میں کوئی کاروبار نہ ہونے کے سبب فاقوں مرتے ہیں۔ بیروزگاری کی شرح میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہرچوتھا آدمی بیکار ہے۔
اگر مکمل طور پر بیکار نہیں بھی تو جزوقتی طور پر بیکار ہے۔آپ کے محلے یا گلی میں یا آپ کے بنگلے اورکوٹھی کے پچھواڑے میں یا آپ کی انتہائی محفوظ ہاﺅسنگ سوسائٹی میں کسی بلند وبالا عمارت کی آخری منزل پر اینٹیں اٹھاتے مزدور آپ کو ضرور مل جائیں گے۔میری التماس ہے کہ لمحہ بھر رک کر ان کے احوال دریافت کر لیجئے۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ان دیہاڑی دار مزدوروں کے کوئی حقوق ہی نہیں ہوتے۔دیہاڑی لگ گئی تو ٹھیک ورنہ گھر بیٹھے بھوک کی تیز دھوپ پر عیاشیاں تلتے رہتے ہیں۔اس طبقہ سے بھی لاکھوں خاندان جڑے ہوئے ہیں۔ہمارے ملک کا چھوٹا کسان‘کلرک‘ملازم‘ ملوںمیں کام کرنے والے کارکن‘دفتروں میں استحصال زدہ عورتیں۔یہ سب وہ گروہ ہیں جن سے ملنے پر ہمیں اپنے معاشرے کے اصلی چہرے کا پتہ چلتا ہے ۔خط غربت سے زندگی گزارنے کا مفہوم کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ کبھی اس خط پر سسکتی زندگیوں کی حسرت بھری نگاہوں میں جھانک کر دیکھنے سے ہوگا۔غربت کی دلدل میں پھنسے عوام کے طبقات کی تعداد گنے نہیں گنی نہیں جاسکتی۔ اسی طرح خوشحال طبقات کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ لوئر مڈل کلاس طبقے کے افراد اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہیں ہر روز یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ اب کے اگر مڈل کلاسیوں والی سیڑھی سے کھسکے تو اور سیدھا خط غربت کے مہیب خانوں میں جاگریںگے۔یہ تگ و دو اور سخت جانفشانی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ان کو آپ آسودہ حال نہیں کہہ سکتے۔غریب انہیں اپنا حصہ سمجھتے ہیں اور امیر انہیں اوپر آنے سے روکتے رہتے ہیں۔اس سے قبل کہ میں خوشحال لوگوں کے اگلے طبقے کا ذکر کروں‘ یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ بتا دوں کہ میں طبقاتی کشمکش پر یقین نہیں رکھتا کہ معاشی بنیادوں پر بپا ہونے والے انقلابات غریبوں کے لئے مزید غربت ہی لے کر آتے ہیں ۔میں نے تو اپنے جیسے مڈل کلاس طبقے اور اس طبقے سے بالاتر امراءاور اشرافیہ کے لوگوں کو صرف یہ حساس دلانا ہے کہ جب تک ملک کے اندر معاشی انصاف نہیں ہوگا بھتہ خوروں کی بھرتیاں جاری رہیں گی اور جرائم پیشہ گروہوں اور انڈر ورلڈ کو انسانی ایندھن ملتا ہی رہے گا۔ آپ بھتے دے دے کر بھی تھک جائیں گے لیکن پھر بھی معاشرتی سکون نصیب نہیں ہوگا۔اپر مڈل کلاس جسے نسلوں تک آسودگی میسر ہے یہ دہری شہریت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے لئے دبئی اور اسلام آباد میں زندگی کی سہولتیں ایک جیسی سہولتیں ہوتی ہیں ۔ ان کے اوپر ایک طبقہ ہے جسے طبقہ امراءکہتے ہیں۔ ان کے لئے ہر ملک اپنا ہے اور انہیںملکوں اور خطوں کے چند مقامات یاد ہوتے ہیں شائد ملکوں کے نام یاد رکھنا ان کی مجبوری نہیں ہوتی۔ان کی دولت ان کے اپنے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے خزانوں میں صرف اضافہ ہوتا ہے کمی نہیں آتی۔یہ قارونی طبقہ پاکستان میں کم نہیں ہے۔سوئٹزرلینڈ کے بینک ان کی رقوم سے بھرے ہوئے ہیں۔میں نے معاشی طبقات کا ایک تاثراتی سا جائزہ پیش کیا ہے۔ جس ملک میں غریب اور امیر میں اس قدر خلیج حائل ہو وہاں ہر روز درجنوں لوگ گھائل نہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے۔ اسلام نے اسی معاشی ناہموار ی کے خاتمے کے لئے حسب حیثیت خیرات‘ صدقات‘غریب رشتہ داروں کی مالی معاونت‘قرضہ حسنہ‘زکوٰة جیسے راستے کھولے تاکہ دولت چند ہاتھوں میں منجمد نہ ہو۔ اور پھر آخری حل بتایا کہ ” ضرورت سے جو کچھ زائد ہو اسے راہ خدا میں خرچ کرو“ جب تک ہم اسلام کے اس انقلابی پیغام کو عملاً نہیں اپناتے ہمیں سکون نہیں مل سکتا۔