Oct
15
|
اگست 1951ءمیں امریکہ کے مشہور کولیئرز میگزین میں امریکہ کی ٹینسی ویلی اتھارٹی کے سابق چیئرمین اور معروف ماہر آبپاشی مسٹر تھول کا ایک مضمون چھپا عنوان تھا ”ایک اور کوریا بن رہا ہے“۔ اس مضمون میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاﺅں کے پانی کی تقسیم کے جھگڑے کی تفصیل پیش کی گئی۔ اس مضمون کا یہ فقرہ بہت مشہور ہوا کہ ”بھارت پاکستان کو ایک گولی چلائے بغیر تباہ کرسکتا ہے“۔
پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے اس بات کا ادراک کرنے کے بعد کہ ایٹمی پاکستان کے ساتھ روایتی یا غیر روایتی جنگ اب لڑی اور جیتی نہیں جاسکتی ایک طے شدہ منصوبے کے تحت پاکستان کے خلاف آبی جارحیت شروع کررکھی ہے جس کے تحت بگلیہاڑ ڈیم ، کشن گنگا ڈیم سمیت پاکستان کی طرف بہنے والے دریاﺅں پر 62 ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے پاکستان کو بنجر بنانے کی کارروائیاں جاری ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی خوراک کی خودمختاری اور خوراک کی سلامتی مکمل طور پر خطرے میں پڑ جائے گی۔
بھارتی آبی جارحیت کا احساس و ادراک پاکستان کی خواتین کسانوں کو بہت اچھی طرح ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے 6 ستمبر کو واہگہ بارڈر پر بھارتی آبی جارحیت کے خلاف بھرپور مظاہرہ کرکے کیا۔اس مظاہرے میں مرد کسانوں نے بھی پاکستان متحدہ کسان محاذ کے زیر اہتمام بھرپور انداز میں شرکت کی تھی۔ کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جنگیں پانی پر ہونگی۔ پاکستان کےخلاف بھارت نے جو آبی جنگ شروع کررکھی ہے پاکستان کی کسان خواتین اور مردوں نے بھارتی آبی جارحیت کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا ہے کیونکہ بھارتی آبی جارحیت کے نتیجے میں دریائے چناب جس میں اپریل مئی میں پانی کا بہاﺅ 34ہزار کیوسک ہونا چاہئے وہ کم ہوکر 17ہزار کیوسک رہ گیا ہے۔ اسی طرح کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے بھارت نہ صرف پاکستان کے حصے کا پانی چوری کرکے ذخیرہ کررہا ہے بلکہ دریائے جہلم کا رُخ بھی تبدیل کررہا ہے جس کے نتیجے میں مظفر آباد کے مقام پر اب دریائے جہلم اور نیلم کا ملاپ دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بھارتی پانی چوری کے نتیجے میں دریائے جہلم نالے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ اسی طرح دریائے کارگل پر بھی بھارت ڈیم بنا رہا ہے۔ بھارت دریاﺅں کو لنک کرنے کے ایک منصوبے پر بھی کام کررہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان ہی نہیں بنگلہ دیش سمیت پڑوسی ممالک کا پانی چوری کرلے گا۔ بہرحال پانی سے فراوانی ہوتی ہے پانی انسانوں اور زراعت کے لئے زندگی ہے جس کی کمی دونوں کو مردہ کردیتی ہے تاہم اس کا احساس پاکستانی کسانوں کو زیادہ اور حکومت کو رسمی حد تک ہے کیونکہ پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ نے کشن گنگا ڈیم کے ڈیزائن سے متعلق بھارت کو خط لکھا ہے مگر تاحال جواب نہیں آیا۔
حقیقت یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پانی ذخیرہ کرسکتا ہے دریا کا رخ تبدیل کرسکتا ہے۔ پاکستان کے اعتراضات میں سب سے اہم نکتہ پانی کے رخ کی تبدیلی ہے۔ جھگڑا یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں دریائے جہلم پر 330 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا ایک منصوبہ شروع کرچکا ہے۔ یہ ڈیم مظفر آباد سے 160 کلو میٹر اوپر کی طرف واقع ہے۔ اس ڈیم کے بننے سے کشن گنگا دریا(جسے پاکستان میں دریائے نیلم کہا جاتا ہے) کا پانی ایک اور نالے میں جاگرے گا۔ نتیجتاً دریائے نیلم کا پانی کم ہو جائے گا جس کا نقصان پاکستان کو بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گا۔
پاکستان کا موقف یہ ہے کہ یہ منصوبہ معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی ہے۔ 2004ءمیں پاکستان کے لاتعداد اعتراضات کی وجہ سے بھارت نے ڈیم کے ڈیزائن میں چند تبدیلیاں کیں لیکن پاکستان کے بنیادی اعتراضات دور نہیں کئے۔ بھارت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ نیلم جہلم منصوبہ بعد میں تشکیل دیا گیا تھا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کون سا منصوبہ پہلے شروع کیا گیا اور کون سا بعد میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا کشن گنگا ڈیم کا بننا معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟۔
معاہدہ سندھ طاس کے مطابق بھارت میں جتنا پانی ذخیرہ کیا جائے گا اتنا ہی پانی چھوڑنا بھی پڑے گا۔ پانی کے رُخ کی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو گرمیوں میں 11 فیصد اور سردیوں میں 27 فیصد پانی سے محروم ہونا پڑے گا کیونکہ پلانٹ پر 11 فیصد کم بجلی حاصل ہوگی۔ پاکستان میں ایکوسسٹم بری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے فصلوں اور ماحولیات کا جو نقصان ہوگا وہ ناقابل تلافی ہے۔ دوسری طرف بھارت پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے ان اعتراضات کو نہیں مانتا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پانی کا رخ تبدیل کرنے سے پاکستان کا پانی کم نہیں ہوگا بلکہ پہلے جتنا ہی رہے گا فرق صرف یہ پڑے گا کہ پہلے نیلم اور جہلم دریا آزاد کشمیر میں آکر ملتے تھے لیکن اب مقبوضہ کشمیر میں ہی مل جائیں گے۔
ابھی تک جماعت علی شاہ کی کارکردگی قلمی دوستی اور تاخیری خط و کتابت تک محدود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی خوراک کی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لئے بھارتی آبی جارحیت کا مسئلہ وزارت خارجہ کی سطح پر اٹھایا جائے اور اس مقصد کے لئے بھرپور محنت اور مکمل ہوم ورک کرکے عالمی بنک اور عالمی عدالت انصاف میں جاکر صرف کیس لڑا نہ جائے بلکہ جیتا بھی جائے۔