Nov
02
|
Click here to View Printed Statement
حکومت معلق ہی رہتی ہے۔ یہ صوبہ ہی ایسا ہے جس میں مستحکم حکومتیں اور مستحسن فیصلے کم ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔ تحریک انصاف کی اس اُدھوری حکومت کے بارے میں بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔بڑے ہی ابتدائی دور سے گزر رہی ہے۔ جو لوگ ابھی سے کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے فیصلے صادر کر رہے ہیں انہیں تجزیاتی انصاف سے کام لینا چاہیے۔صوبائی حکومت کو ”ناکام” قرار دینے سے پہلے اس صوبہ کی حالت زار کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ ابتری کو سامنے رکھ کر ہی بہتری کا اندازہ لگایا جانا چاہیے۔راقم کو کبھی بھی بہت زیادہ توقعات نہیں رہیں ۔ہمارے ہاں جمہوریت ہو یا آمریت چونکہ افراد کی حیثیت اہم ہوتی ہے اس لئے جہاں فرد باصلاحیت ہوا’ وہاں نتائج بہترہوگئے اور جہاں افراد کرپٹ ہوں یا نااہل تو پوری جماعت ملکر بھی ملک کو دلدل سے باہر نہیں نکال سکتی۔ جماعتوں کی کارکردگی ان کی لیڈر شپ سے مترشح ہوتی ہے۔تحریک انصاف ایک نئی سیاسی جماعت ہے
بلکہ پاکستانی قوم نے ایک نیا تجربہ کیا ہے۔عمران خان کی طلسماتی شخصیت نوجوانوں کے دل و دماغ پر ایسی چھائی کہ آج بھی خان صاحب کی ہر دلعزیزی میں فرق نہیں آسکا۔مجھے بھی ان کی شخصیت سے کئی اختلافات ہیں’لیکن اس ملک کا مستقبل ان کے ساتھ وابستہ ہوچکا ہے۔اور آنے والی اسمبلیوں میں بھی ان کا وجود مٹایا نہ جاسکے گا۔ خان صاحب کو ذاتی طور پر حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن ان کے ذاتی خیالات انتہائی شفاف اور پاکیزہ ہیں۔ ان کے دل میں جو ہوتا ہے وہی ان کی زبان پر بھی آتا ہے۔جس طرح انہوں نے ڈرونز کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا اور جس دلیل اور دلیری کے ساتھ انہوں نے مغرب کو اس ظلم کا احساس دلایا ہے’یہ ایک عمل ہی ان کی حب الوطنی’ انسان دوستی اور اسلام پسندی کے لئے بہت بڑی دلیل ہے۔”میرے گھر امریکی سفیر آئے۔میں نے ملازم سے کہا کہ سفیر نے آنا ہے کوئی بسکٹ وغیرہ لے آنا۔وہ دکان سے عام سے بسکٹ لے آئے۔ چائے پر امریکی سفیر نے خود شاپر سے بسکٹ نکال کر کھائے”۔میں نے ایک ٹی وی پر جب عمران خان کی یہ گفتگو سنی تو مجھے ان کی خودداری کا اعتراف کرنا پڑا۔ اگر کوئی اور ہوتا تو وہ ”ہٹو بچو” ‘ہائی ٹی ‘ ہائے بائے” کے وہ اہتمام کرتا کہ امریکی سفیر ‘سفیرکی بجائے وائسرائے دکھائی دیتے۔خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ جناب پرویز خٹک سے میرا تعارف نہیں تھا۔ان کے دیرینہ دوست محمد طارق نے مجھ سے ان کی شخصیت کے بارے میں ایسی محبت بھری گفتگو کی کہ مجھے جناب خٹک سے ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا اور جناب جاوید بدر صاحب کی رابطہ کاری کے نتیجے میں یہ تفصیلی ملاقات ہوگئی۔پرویز خٹک لباس ہی نہیں لب و لہجہ کے اعتبار سے بھی انتہائی سادہ مگر پختہ عزم کا نمونہ ہیں۔ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر جہاں اپنے اپنے صوبے کے مسائل کا احاطہ کیا وہیں اپنے خوابوں ‘منصوبوں اور کارروائیوں پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ احتساب کمیشن کے دائرہ اختیار میں اضافہ کردیاگیا ہے۔یہ کمیشن اداروں کے سربراہوں پر ہاتھ ڈال سکے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ بااختیار کمیشن ہوگا اور اسمبلی سے بل پاس ہونے کے بعد روبہ عمل ہوگا اور چیف منسٹر تک کو گرفتار کرسکے گا۔انہوںنے کہا کہ پٹواری کانظام بھی بہتر بنایا جارہا ہے۔ا ب پٹواری سے رشوت نہ لینے کا حلف لیا جائے گا اور زمین کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبہ کا سب سے بڑا چیلنج تعلیم ہے۔اس سلسلے میں بیرون اور اندرون ملک مخیر حضرات نے اربوں روپے کے عطیات کی پیشکش کی ہے اور ہم اس سلسلے میں ایک جامع منصوبہ بناچکے ہیں۔ہم یکساں نصاب تعلیم کے لئے پہلی کلاس سے ہی انگریزی لازمی ہوجائے گی۔اساتذہ کے تبادلے ختم کردیں گے اور جس سکول میں ٹیچر بھرتی ہوگا اسی سے ریٹائرڈ ہوگا۔تعلیم میٹرک تک مفت ہوگی’امیر اور غریب کا فرق ختم ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ امن وامان کا مسئلہ طالبان سے جُڑا ہوا ہے اور اگر علمائے کرام آگے بڑھیں تو طالبان سے مذاکرات کو کامیاب بنایاجاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشتگرد کارروائیاں کرکے فاٹا میں روپوش ہوجاتا ہیں جس سے انہیں پکڑنا ناممکن ہوجاتا ہے۔پرویزخٹک نے کہا کہ تھانوں کے اندر کیمرے نصب کئے جارہے ہیں اور پولیس کی ٹریننگ کا پلان بنا لیا گیا ہے۔جناب پرویز خٹک کے خیالات میں یکسوئی تھی۔وہ عمران خان کی شخصیت کو اپنے لئے فکری توانائی کا سبب قرار دیتے ہیں۔صوبے کے عوام کی حالت بدل دینے کا جذبے سے سرشار ہیں۔میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ اس وقت وہ تمام قوتیں جو صوبہ خیبرپختونخواہ کے خیرخواہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں تحریک انصاف کی حکومت کا غیر مشروط ساتھ دینا چاہیے۔ محض سیاسی اختلافات اور حکومت ہتھیانے کے لئے پروپیگنڈہ مہم چلانے کا نقصان صرف عوام الناس کو ہوگا۔