Dec
05
|
Click here to View Printed Statement
ماہ دو ماہ بعد کراچی کا چکر ضرور لگتا ہے۔یوں معاش کا معاملہ بھی سدھرتا ہے اور منی پاکستان کے حالات سے بھی واقفیت رہتی ہے۔گزشتہ دنوں ساحل سمندر کی طرف اڑان بھری تو جہاز میں عوامی نیشنل پارٹی صوبہ سندھ کے صدر اور کراچی میں پٹھان بہن بھائیوں کے ہر دلعزیز رہنما جناب شاہی سید سے سرسری گفتگو ہوئی جو اسلام آباد میں ایک مفصل ملاقات کی باہمی خواہش پر منتج ہوئی۔گوکہ شاہی سید سے ملاقات کی تصاویر اور خبر پاکستان اکانومی واچ کے پلیٹ فارم سے ملک کے مئوقعر اخبارات میں شائع ہوچکی ہے ‘لیکن درج ذیل تفصیلات بھی دلچسپ ہیں۔حسب وعدہ ووقت پختون رہنما پارلیمنٹ لاجز میں اپنے اپارٹمنٹ میں منتظر تھے۔بڑے تپاک سے ملے۔بے تکلف’سادہ طبعیت اور سیدھے سادھے پٹھان سے بات چیت کا اپنا ہی مزا تھا۔تجزیہ نگار بیگ راج بھی ہمراہ تھے۔چائے کا دور چلا اور جناب شاہی کی ”شاہانہ”زندگی کے راز کھلنے شروع ہوئے۔
”ضلع مردان کا رہنے والا ہوں۔ایک گائوں میں پیدا ہوا۔ والدین کے پاس اتنی زمین نہیں تھی کہ وہ میری تعلیم کا خرچہ بھی اٹھا لیتے۔آٹھویں کے بعد روزگار کی تلاش میں کراچی چلا گیا۔ وہاںفیکٹری میں مزدوری کر لی۔ پھر رکشا خرید لیا’ٹیکسی بھی چلائی۔چونکہ میں نے پیسے گھر نہیں بھیجنے ہوتے تھے اور رہائش اور خوراک بھی سستی تھی اس لئے پیسوں کی بچت ہوئی اور پھر میں نے دکان خرید لی۔بڑی محنت کی ۔ کچھ زمین خریدی۔ زمین کے ریٹ بڑھنے سے میں بھی مالدار ہوگیا۔پٹرول پمپ خریدا اور سی این جی سٹیشن بھی بنایا۔ چونکہ کراچی آنے والے میر ے علاقے کے لوگ اپنی مشکلات کے حل کے لئے میرے پاس آتے تھے اور میں اپنے تعلقات استعمال کرکے ان کے مسئلے حل کرواتا تھا’ اس لئے اللہ نے عزت بھی دی۔1991ء میں میں پارٹی میں چلا گیا۔ اور پھر مسلسل صوبائی صدر منتخب ہوتا رہا”۔بڑے اختصار کے ساتھ انہوں نے اپنا تعارف مکمل کیا۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ سینیٹر ہیں۔آپ کی پارٹی کی صوبہ خیبرپختونخواہ میں حکومت بھی رہی۔آپ نے وزارت کیوں نہ لی۔اس پر شاہی سید کا کہنا تھا کہ مجھے وزارت کی پیشکش ہوئی میں نے پیشکش کرنے والوں سے پوچھا کہ آخر وزیر بن کر میں کیا کروں گا؟۔ وزیر بننے کی خواہش دو وجوہات سے ہوسکتی ہے۔ ایک یہ کہ میں اپنی دولت میں اضافہ کروں۔ اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔مجھے ہر ماہ دس بارہ لاکھ روپے کا کاروبارسے آجاتا ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں۔ بیٹے باہر ہیں۔ وہ اپنا کماتے ہیں اورکھاتے ہیں۔ اگر اہل ہوں گے تو اپنے لئے جمع کر لیں گے اور اگر نااہل ہوئے تو جمع کی ہوئی دولت اجاڑ دیں گے۔ اس لئے دولت اکٹھی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔دوسری بات جس سے لوگ وزیر بننا چاہتے ہیں وہ ہے کہ وزیر کے اختیارات لے کر لوگوں کے کام کرائے جاسکیں تو اس ملک کی بیوروکریسی ایسی ہے کہ یہاں دیواروں سے ٹکریںمارتے رہیں’ لوگوں کے کام نہیں ہوسکتے۔رشوت کے بغیر یہاں ایک نالی نہیں بنوائی جاسکتی۔ اس لئے میں نے وزارت کی پیشکش شکریے کے ساتھ واپس کردی۔کراچی کے حالات کے بارے پختون رہنما کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے تاریخی اقدامات کی نشاندہی کر دی ہے۔پولیس کو غیر سیاسی کیا جائے۔آپریشن کراس دی بورڈ” کیا جائے۔شہر کو اسلح سے پاک کیا جائے اور نئے سرے سے انتخابی حلقہ بندیاں کی جائیں۔ اگر یہ چار اقدامات خلوص نیت سے اٹھائے جائیں تو کراچی چھ ماہ کے اندر امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔اقتصادی بہتری کے حوالے سے شاہی سید نے بڑے کھرے انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب ملک میں امن ہی نہیں ہے تو پھر خوشحالی کیسی۔جس ملک میں اس کے اپنے کاروباری اور سرمایہ کار گروپ بیرون ملک بھاگ رہے ہوں وہاں باہر سے آکر لوگ کیوں سرمایہ کاری کریں گے۔ میری مثال سامنے ہے ۔ میں نے اپنے بیٹوں کو خود دبئی میں کاروبار بنا دیئے ہیں۔ یہاں تو وہی لوگ کاروبار کریں گے اور سرمایہ لگائیں گے جنہوں نے بیوروکریسی کے ساتھ ملکر ڈاکے ڈالنے اور راتوں رات منافع جمع کرنا ہے۔کاروبار تو ایک درخت کی مانند ہوتا ہے جو نسل در نسل بڑھتا ہے۔پاکستان میں ایسی فضاء ہی نہیں کہ ایسے درخت جڑیں پکڑ سکیں۔ جو لوگ اس کے باوجود یہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہ یا تو مجبور ہیں یا پھر ولی اللہ ہیں۔پاکستان کی وفاداری کے سوال پر اے این پی کے رہنما نے دو ٹوک جواب دیا کہ ان کے رہنما باچا خان نے پاکستان کی مخالفت ضرور کی تھی لیکن ان کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ کمزور پاکستان کی بجائے مضبوط پاکستان بنایا جائے۔ جب وہ اسمبلی میں آگئے تو پھر مخالفت کا طعنہ دینا صرف جماعت اسلامی والوں کا ہی وطیرہ ہوسکتا ہے۔یہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔پاکستان کے علاوہ ہمارا کوئی اور وطن نہیں۔ہم نے روس کے خلاف جہاد کو امریکہ کی جنگ کہا اور یہ سچ ثابت ہوا۔ آج ڈرون کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ضرور ہونے چاہیں ۔لیکن آسمانی ڈرون کے ساتھ ساتھ زمینی ڈرون کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ڈاکٹر صاحب… سب سے زیادہ قربانیاں میری پارٹی نے دی ہیں۔ لیکن پنجاب کا کون سا ضلع ہے۔ جہاں لاشیں نہیں پہنچیں۔ طالب کون ہے اور کون غیر طالب ۔یہ تو ہمارے ادارے ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ اگر نیت میں اخلاص ہو تو پھر طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔شاہی سید سے بیگ راج نے پنجاب کے خلاف مبینہ نفرت کے بارے میں سوال کیا تو شاہی سید نے کہا کہ پنجاب بڑے بھائی کی طرح ہے۔ ہم پختون بڑے بھائی کو والد کی طرح سمجھتے ہیں۔پنجاب کو چاہیے کہ وہ شفیق والد کی طرح ڈانٹے ڈپٹے بھی لیکن شاباش بھی دیا کرے۔جناب شاہی سید سے ملاقات کے دوران ایم کیو ایم کے حوالے سے ان کے شکوے گلے بھی سنے۔بعض باتیں ایسی ہیں کہ ان کا بیان کرنا شائد ”فساد فی سبیل اللہ” کے زمرے میں آتا ہے اس لئے انہیں پیش قارئین نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ان کے اس تجزیے پر غور ضروری ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دونوں ہی الطاف حسین کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔ وہ ایم کیو ایم کی عوامی قوت (جسے شاہی سید ٹھپہ مافیا کی کرشمہ سازی زیادہ اور حق پرست عوام کی کارگزاری کم سمجھتے ہیں)کو ایک بندوق کے طور پر ایک دوسرے پر تانے رکھنا چاہتے ہیں۔ گوکہ آجکل کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں کم ہوگئی ہیں ‘لیکن حکومت’ایم کیو ایم’ پی پی پی اور دیگر مذہبی وسیاسی جماعتوں کو اس بات پر یکسو ہوجانا چاہیے کہ مجرم’مجرم ہوتا ہے۔اسے سیاسی لبادہ اوڑھا کر سیاسی قوت حاصل نہیں کی جاسکتی۔