Dec
16
|
Click here to View Printed Statement
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما عبدالقادر ملا کو بھارتی نواز حسینہ واجد کی کٹھ پتلی عدالت کی طرف سے پھانسی دیئے کئی روز گذر گئے لیکن بنگلا حکومت کے خلاف نفرت اور بیزاری کی لہر روز بروز زور پکڑتے جارہی ہے۔ردعمل کی لہریں بنگلا حدود سے نکل کر پورے عالم اسلام میںپھیل رہی ہیں۔اور ہر طرف سے ایک ہی صدا ہے کہ ”ظلم ہوا ”۔ اگر کچھ زبانیں ابھی تک کھل کر مذمت نہیں کر پا رہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ پھانسی گھاٹ پر جھولنے والے شخص کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ اگر یہی پھانسی کسی بے ریش اور بے نظریہ اور سیکولر شخصیت کے حصے میں آتی تو یو این او سے لے کر کراچی لاہور تک ہر جگہ شمعیں روشن ہوتیں اور قد آدم تصاویر کے سامنے پھولوں کے ڈھیر لگ جاتے۔پاکستان کی نئی نسل کو شائد علم ہی نہ ہو کہ مقتل میں تڑپتے لاشے کا قصور کیا تھا۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بھارت کی پٹھو حکومت نے 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں والی طاقتوں کا مقابلہ کرنے والے پاکستانیوں کے خلاف جنگی جرائم کے لئے جو ٹریبونل قائم کیا وہ سراسر سیاسی نوعیت کا ہے۔ اس ٹریبونل کے طریقہ کار اور اس میں شامل لوگوں سے کسی انصاف کی قطعاً توقع نہیں ہوسکتی۔یہ وہ حقیقت ہے جس کا اظہار انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی کیا ہے۔اندازہ کیجئے کہ حسینہ واجد اور اس کے حامیوں نے الزام لگایا ہے کہ دوران جنگ 30لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا۔تمام آزاد ذرائع نے اس ”30لاکھ” کو ناقابل یقین قرار دیا ہے۔چونکہ یہ قتل اور ریپ کی مبینہ وارداتوں میں پاک فوج اور اس کا ساتھ دینے والی جماعت اسلامی کو ملوث کیا گیا ہے اس لئے پاکستان بطور ریاست اس ”جرم” میں فریق بنایا گیا ہے۔لیکن حکومت پاکستان نے ڈھاکہ جا کر ”غیر مشروط معافی” مانگ لی۔ اور یہ معافی بھی اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے مانگی تھی۔خود فوج کے افسران اس ”معافی” پر حیرت زدہ رہ گئے تھے کیونکہ ابھی ان نوے ہزار فوجیوں میں سے ہزاروں افسران زندہ ہیں جنہوںنے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی اور بھارتی فوج کا بڑے ہی نامساعد حالات میں مقابلہ کیا تھا۔معاملہ تو بالکل الٹ تھا۔پاکستان کی حامی بستیوں’محلوں اور دیہاتوں میں مکتی باہنی کے غنڈوں نے جس طرح ظلم ڈھائے تھے اس پر بی بی سی کی رپورٹیں گواہ ہیں ۔ کس طرح البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو لٹا کر ان کے سینوں میں پاکستان کے جھنڈے گاڑے گئے۔ کتنی عفت مآب بہنوں اور بیٹیوں کو ان کے والدین کے سامنے بے آبرو کیا گیا۔فوج نے ہتھیار ڈالنے سے پہلے جماعت اسلامی کو اطلاع تک دینا ضروری نہ سمجا تھا’ یہ جماعت اسلامی کے لوگ ہی تھے جو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے اور قتل ہوتے رہے۔
اس وقت تو بنگلہ دیش کی تحریک چل رہی تھی’ بنگلہ دیش قائم نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا جو لوگ پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے انہیں بنگلہ دیش کا باغی کہنا حب الوطنی کی کسی بھی تعریف کی توہین ہے۔ بنگلہ دیش قائم ہونے کے بعد جماعت اسلامی نے بھی اسے اپنا ملک تسلیم کر لیا اور جناب عبدالقادر ملا اور ان کے رفقاء نے سی بنگلہ دیش میں الیکشن لڑے اور ملا دو بار پارلیمنٹ کے رکن رہے۔ وہ ایک مئوقر اخبار کے ایڈیٹر اور ڈھاکہ پریس کلب کے صدر بھی رہے۔ جنگی جرائم کا ٹریبونل قائم کرکے دراصل حسینہ واجد نے ہندو لابی اور بھارت کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔آج چٹاگانگ میں علیحدگی تحریک چل رہی ہے اور یہی جماعت اسلامی ہے جس کے کارکنان علیحدگی کی تحریک کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔کیا چٹاگانگ آزاد ہوجانے کے بعد انہیں پھر سے جنگی مجرم کیا جائے گا؟۔
کیا وہ لوگ جو بلوچستان کے اندر علیحدگی پسندوں کا نشانہ بن رہے ہیں وہ جنگی مجرم ہیں یا سچے پاکستانی۔افسوس کہ جنرل پرویز مشرف نے بھی بھارت کو خوش کرنے کے لئے ڈھاکہ میں جا کر معافی مانگ کر سچے پاکستانیوں کی توہین کی تھی اور آج اگر فوج اور حکومت حسینہ واجد کو پاکستان کی جنگ لڑنے والوں کے قتل عام سے باز رکھنے کی تگ و دو نہیں کرتے تو پھر عام پاکستانی اپنے وطن کی محبت میں جان قربان کرتے وقت کئی بار سوچے گا۔ افراد کو پھانسی ہوتی رہتی ہے۔ وہ اپنا صلہ اللہ کے ہاں سے ضرور پائیں گے لیکن لاتعلقی سے اعتبار کو بھی پھانسی ہوتی ہے اور اگر اداروں اور ریاستوں سے اعتماد اٹھ جائے تو پھر دفاع وطن کیلئے ”پتر ہٹوں سے خریدنے پڑتے ہیں” البدر اور الشمس کے جھنڈے تلے بغیر کسی معاوضے’ تنخواہ اور تمغے کے جان نچھاور کرنے والے سامنے نہیں آتے۔
ڈھاکہ کی جیل میں نظریہ پاکستان کوپھانسی نہیں ہوئی بلکہ یقین ہوگیا ہے کہ ان پھانسیوں سے اب نظریہ پاکستان مزید پھیلے گا اور جس طرح عبدالقادر نے پھندے کو چوم کر کلمہ پاک کا ورد کرتے اسلام زندہ باد کا نعرہ لگا کر جان جان آفریں کے سپرد کی ہے ۔ اس سے شہادت کے جذبے پروان چڑیں گے اور بنگلہ دیش بالآخر اسلامی جمہوریہ بن کر ابھرے گا۔