Oct 06

دوست کے ہمراہ لاہور میں اس کے گھر کے گیٹ پر پہنچا ہی تھا کہ اس کے معصوم بچے اپنے والدین کو دیکھ کر پکار اٹھے ”ماتا پِتا آ گئے، ماتا پِتا آ گئے“۔ پاکستانی مسلمان بچوں کی زبان پر ماتا پِتا کے الفاظ سن کر میرا ماتھا ٹھنکا اسی دوران میرے دوست کی معصوم بچی اپنے والد سے لپٹنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوئی اور اپنے سے کچھ بڑے بھائی کا تعارف کراتے ہوئے کہنے لگی یہ ہے میرا بھائی ”ہنومان جی“ ۔

اسی دوران میں میزبانوں کے ڈرائنگ روم میں پہنچ گیا جہاں ٹی وی پر بچوں کا بھارتی چینل ”پوگو“ لگا ہوا تھا جس میں ہندی زبان میں کارٹون فلمیں دکھائی جارہی تھیں۔ یہ دیکھنے کے بعد سارا معاملہ میری سمجھ میں آ گیا۔ مجھے پاکستان کی قومی اسمبلی میں ممتاز کالم نگار بشریٰ رحمان کا احتجاج یاد آ گیا جس میں وہ کہہ رہی تھیں کہ ” پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کا یہ نتیجہ برآمد ہورہا ہے کہ ہمارے بچوں کی زبانوں پر ماتا پِتا، رام اور سیتا کے الفاظ آ رہے ہیں جبکہ ان فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر اسلامی معاشرے کے اقدار کے سراسر منافی ہیں۔
ستم بالائے ستم کہ کیبل پر بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کا مطالبہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ پاکستان میں سینما کی بحالی کی آڑ میں بھارتی فلموں کی نمائش کی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچایاجارہا ہے حالانکہ بھارتی فلمیں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام اور پاکستان دشمنی پر مبنی بنائی جاتی ہیں جن کی مثال بھارتی فلموں ”بارڈر، مشن کشمیر“ کی شکل میں موجود ہے۔ اسی طرح ”ویرزارا“ نامی فلم میں ایک پاکستانی مسلمان لڑکی کو ہندو لڑکے پر مر مٹتے دکھایا گیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ محض اتفاق ہے نہیں ہر گز نہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ بھارت ثقافتی یلغار کے ذریعے اپنے ہمسایوں کو اپنے زیر اثر لانے کے لئے کوشاں رہتا ہے اور پاکستان میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ بھارت ان پُرکشش ترغیبات اور کتابی و فلمی یلغاروں کے ذریعے نظریہ پاکستان کو غلط ثابت کرنا چاہتا ہے۔ گولڈن جوبلی سال کے موقع پر بھارتی ٹی وی پر دکھائی جانے والی بھارتی فلم ”بارڈر“ پاکستان کی مسلح افواج اور نظریہ پاکستان کے خلاف زہریلے مواد اور گمراہ کن پروپیگنڈہ پر مبنی تھی جس کے پیش نظر پاکستان میں اس فلم پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اگر قیام پاکستان کی بنیادی احساس پر ہی دشمن ضرب کاری لگانے میں کامیاب ہو جائے تو پیچھے رہ کیا جاتا ہے۔ مشترکہ ثقافت کے نام پر دو قومی نظریہ کو غلط ثابت کرنے کی سازش ہمیں ہی ناکام بنانی ہوگی۔ دو قومی نظریہ لباس، علاقے یا زبان کی ہم آہنگی کے نام پر قوم کی تشکیل کی بات نہیں کرتا بلکہ دو قومی نظریے سے متصادم ہونے کی بناءپر جنگِ بدر میں باپ بیٹا اور سگے بھائی آمنے سامنے تھے کہ معاملہ حق و باطل اور کفر و اسلام کے درمیان کھینچی گئی واضح لکیر کا تھا۔ قیام پاکستان کی شکل میں واہگہ بارڈر پر خونِ شہیداں سے کھینچی جانے والی سرحدی لکیر مصنوعی نہیں ہے جسے ناچ گانے والے اور والیاں ثقافتی یلغار کی آڑ میں ملیا میٹ کرسکیں مگر ازلی دشمن بھارت اور اس کی قیادت کے مذموم عزائم سامنے رکھنے ضروری ہیں۔
ماضی میں کرکٹ مقابلوں کے دوران بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کی بیوہ اور گانگریس کی مرکزی رہنماءسونیا گاندھی نے ایک بیان دیا تھا کہ ”بھارت کی ثقافتی یلغار نے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کردی ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو ثقافتی محاذ پر شکست دیدی ہے۔ اب پاکستان کو اصل میدان جنگ میں ہرانا ضروری نہیں، پی ٹی وی ہمارے مذہبی رقص دکھا کر ہمارا کام آسان کررہا ہے“۔
میرا دردمندانہ خطاب ختم ہوا تھا کہ سینئر صحافی راجہ جاوید علی بھٹی جوکہ خود بھی نظریہ پاکستان کے اگلے مورچوں کے سپاہی ہیں۔ وہ بھارتی عزائم پر ہر طرح کی یلغار خواہ وہ آبی جارحیت ہو یا ثقافتی حملہ کے خلاف مجاہدانہ للکار کے قائل ہیں اور نفسیاتی دباﺅ میں آنے کو ذہنی شکست کا نکتہ آغاز سمجھتے ہیں یوں گویا ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مسلمان تو آج تک بھارتی ثقافتی یلغار سے فتح نہیں ہوسکے۔ کچھ پاکستانی صرف دل بہلانے کے لئے بلاشبہ بھارتی فلمیں دیکھتے ہیں اور گانے بھی سنتے ہیں لیکن ان کی ملی حمیت اور قومی غیرت زندہ ہے۔ پاکستانی مسلم نوجوانوں کی غالب اکثریت خود کو محمد بن قاسم اور محمود غزنوی کی روحانی مراث سمجھتی ہے۔ پاکستان کے وزیر ثقافت نے سونیا گاندھی کے بیان پر ردعمل میں درست کہا تھا کہ ”بھارت والے پہلے تو اپنی ثقافت کی تعریف بتائیں ان کے پاس مندروں کے چند ناچ گانوں، بتوں کے مجسموں اور تصویروں کے سوا اور کونسی ثقافت ہے۔ بھارت الیکٹرانک میڈیا سے لاکھ ثقافتی یلغار کرلے ہم پر قطعی طور پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔ ہمارا جذبہ اور ایمان اتنا کمزور نہیں کہ ان ٹھمکوں کو دیکھ کر ہمارا ایمان اور قومیت لرز جائے۔ ہم اپنے کلچر میں خود کفیل ہیں۔ ہمارا کلچر بھارت سے بڑا اور مضبوط ہے“۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں اور یہ بات ہے بھی برحق کہ اسلامی ثقافت کو شکست دینے والی ثقافت اس کائنات میں اب تک پیدا نہیں ہوئی، نہ ہوگی۔ اسلامی ثقافت کو مغلوب و مفتوح بنانا ممکن ہی نہیں ورنہ آج ترکی میں اسلامی ثقافت دوبارہ واپس نہ آئی ہوتی۔ اسلامی ثقافت میں اخوت، مساوات، عدل و احسان، تقویٰ، طہارت، حسن خلق اور ایمان کی ناقابل تسخیر قوت ہے اسے ذات پات اور بھانڈ ثقافت کیسے فتح کرسکتی ہے۔ بھارت کا اصل کلچر اونچ نیچ، باہمی نفرت، توہین آدمیت، دوسرے مذہب اور عقیدے کو برداشت نہ کرنا، تنگ نظری، موقع پرستی، وعدہ خلافی، ماتحت ہو تو خوشامد، مکاری اور سازش لیکن حکمران ہو تو ظلم و قتل و غارت ہے۔ بھارت کی اصل ثقافت وہ ہے جس کی زد میں بھارت کے مظلوم و محروم مسلمان ہی نہیں عیسائیوں سمیت تمام اقلیتیں ہیں۔ بھارت کی اصل ثقافت وہ ہے جو کروڑوں اچھوتوں کو اونچی ذات کے ہندوﺅں کے کنوﺅں سے پانی بھی نہیں پینے دیتی۔
نظریہ پاکستان دراصل نظریہ اسلام ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد ”لاالہ الا اللہ“ پر قائم ہے۔ رائٹرز یونٹی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر راجہ جاوید علی بھٹی کو بھارت کے دورے پر چند سال قبل جب بھیجا گیا تھا تو انہوں نے گائے کے کبابوں کی دعوت دیکر مشترکہ ثقافت کے ڈھول کا پول کھول دیا تھا۔ بھارتی فلموں اور ثقافتی یلغار کا راستہ روکنا وقت کا تقاضا اور ہمارا قومی فریضہ ہے تاہم دونوں ملکوں میں نظریات اور مزاج کا اتنا فاصلہ ہے کہ پاکستان کی قوم کسی بھی حالت میں اور کسی بھی شعبہ میں بھارت کی بالادستی قبول کر ہی نہیں سکتی۔

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply