Dec
23
|
Click here to View Printed Statement
کیا چرچے تھے۔قوم کو خوشخبری دی گئی تھی کہ جناب آصف علی زرداری نے امریکہ کی آنکھوں میں ایسی آنکھیں ڈالی ہیں کہ سپر پاور شرمندگی سے ”گونگی” ہوگئی ہے۔ ایران کے ساتھ گیس کی فراہمی کے معاہدے پر تہران میں دستخط کئے گئے اور پیپلزپارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں اپنے سب سے بڑے کارنامے کے طور پر اسے درج کیا۔ لوگوں نے ووٹ کیوں نہ ڈالے اس پرلوگوں کو ہی موردالزام ٹھہرانا چاہیے کہ اتنے بڑے”کارنامے” کے بعد گیس کو ترستی عوام کے پاس تیر پر مہر لگانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہونا چاہیے تھا’ لیکن بیلٹ باکس خالی نکلے اور بقول اعتزاز احسن پی پی پی کا ”مینڈیٹ”چرا لیا گیا۔ عوام کے تحت الشور میں موجود تھا کہ انتخابات کی آمد سے چند مہینے پہلے حکومتیں جو ”کارنامے”سرانجام دیتی ہیں وہ صرف درشنی ہوتے ہیں۔
حقیقت سے ان کا دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ معاہدہ کرنے سے پہلے اور بعد میں کبھی نہیں بتایا گیا کہ اس کے لئے مطلوبہ رقم کہاں سے آئے گی اور امریکی پابندیوں سے امریکی قرضوں کی دلدل میں پھنسے پاکستان جیسے ملک کو کیسے چھوٹ ملے گی۔معاہدے میں صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہاتھ پائوں باندھنے کا بھی اہتمام کیا گیا ۔ اگر پاکستان اپنے حصے کی پائپ لائن مقررہ مدت تک تعمیر نہ کرپایا تو روزانہ کے حساب سے لاکھوں ڈالر جرمانہ بھی ادا کرے گا۔ یوں اب دو ہزار چودہ سر پر ہے۔ ایران نے پہلے پانچ سو ملین ڈالرکا جھانسہ دیا اور پھر صرف انکار کردیا کہ جناب ہمارے پاس تو ڈالر ہیں ہی نہیں۔آپ کو کہاں سے دیں۔پاکستان کی اپنی حالت سب کے سامنے ہے۔اب جہاں آئی ایم ایف کے قرضے اتارنے کے لئے آئی ایم ایف سے ہی مزید قرضے لئے جارہے ہیں وہاں جرمانے ادا کرنے کے لئے مزید قرضہ لینا ہوگا۔ نہ امریکی پابندیاں ہٹنے والی ہیں نہ ہی ایران سے گیس آنے والی ہے۔ بلکہ آنے والے مہینے اور سال پاک ایران تعلقات میں مزید رخنے پیدا کرسکتے ہیں۔
سعودی عرب نے ایران اور شام کے خلاف کھلا اعلان جنگ کردیا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کو توازن برقرار رکھنے کے لئے تنی ہوئی رسی پر ڈانس کرنا پڑے گا۔عربوں کو ناراض نہیں کیا جاسکتا۔ ایران کو خوش رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔تعاون کے ہر دو طرف سے تقاضے بڑھیں گے۔ کوئی ہماری شلوار کھینچے گا اور کوئی پگڑی اتارے گا۔ دوستوں کے ہاتھوں ہی دشمنیوں میں گھرنے کا موسم قریب آپہنچا ہے۔
ہوائی منصوبے ان کے اشتہار چلانے اور ٹی وی مذاکرے کرنے کرانے کے ہم ماہر ہوچکے ہیں۔گیس بھی غریب کی چادر کی طرح ہوگئی ہے۔ سی این جی سیکٹر کو گیس دیں تو پھر گھروں کے چولہے بند ہوجاتے ہیں۔چولہے جلائیں تو پہیہ رک جاتا ہے۔صنعتوں کو گیس نہ ملے تو مزدور اور صنعتکار بیکار اور اگر صنعتکار کا خیال رکھیں تو پھر چھوٹے صوبوں کے حقوق ”غصب” ہوجاتے ہیں۔
ملازمین اور عوام قدرے سستے سفر سے بھی محروم کردیئے گئے ہیں۔سوزوکی اور ٹیکسی والے روزانہ مظاہرے کرتے ہیں۔تنخواہ سے بچوں کا پیٹ پالیں یا پٹرول پر چلنے والی گاڑیوں کے بھاری کرائے ادا کریں ۔ گھر سے نکلنا محال اور گھر بیٹھیں تو زندگی بدحال ۔جائیں تو آخر کہاں جائیں۔
پٹرولیم کی وزارت نے ”خوشخبری” سنائی ہے کہ اب ایران سے گیس درآمد کرنا مشکل ہوگیا ہے۔یہی وزارت تھی جس نے عباسیہ انداز میں سینہ پھلا کر متعدد مرتبہ یقین دلایا تھا کہ پاک ایران گیس معاہدے پر ہرحال میں عمل ہوگا اور اب یہی وزارت جھاگ کی طرح بیٹھ گئی ہے۔یہی نہیں یہ حکم بھی سنا دیا ہے کہ ملکی گیس کا ذخیرہ صرف سولہ برس مزید چلے گا اور سی این جی سیکٹر کو گیس صرف اسی صورت ملے گی جب ایل این جی کی درآمد شروع ہوگی۔سنا ہے قطر نے یہ مہنگی گیس بیچنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔اس گیس کی درآمد کا انحصار بھی ہماری عدلیہ پر ہے۔ اگر اس عالمی معاہدے کو ہماری مقامی عدالتوں نے ”خلاف قانون” قراردے دیا تو پھر گیس نہیں ملے گی۔آنے والے موسم سرما میں عوام کیا تاپیں گے؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ہوسکتا ہے ملک کے بچے کھچے جنگلات کو پھونکنا پڑے۔ بہتر ہے کہ آج ہی درخت اگانے کا پروگرام شروع کرا دیں۔اس کے لئے جناب احسن اقبال کی خدمات حاصل کرنی چاہیں۔ ورنہ پاک ایران گیس معاہدے میں گیس کوئی نہیں صرف شوں شاں ہی ہے۔