Jan 20

Click here to View Printed Statement

اچانک ہی پروگرام بن گیا۔عظمت اللہ دیرینہ دوست ہیں ۔اچھی انگریزی لکھنے والے صحافیوں میں شمار ہوتا ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کے ساتھی ہیں۔سماجی رابطوں کو نبھانے کا حوصلہ اور ہنر جانتے ہیں۔ معروف ٹی وی اینکر اور کالم نگار جناب اسرار کسانہ بھی اولڈ قائدین ہیں۔سابق انکم ٹیکس ڈپٹی کمشنر ہاورڈیونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور قائداعظم یونیورسٹی کے ہونہار سٹوڈنٹ جناب حسن کامران بشیر بھی ہمراہ تھے۔اسرار کسانہ سے درخواست کی کہ گوجرخان جانے کی تمنا قلب و دماغ کو جکڑ رہی ہے۔ مصروفیات سے کون بچا ہوا ہے۔بہرحال کسانہ آمادہ ہوگئے کہ گوجرخان کے راز دان ہیں اور وہاں کی عقیدت ان کے لب ولہجہ پر حاوی رہتی ہے۔

پروفیسراحمد رفیق اختر کے بارے لوگوں سے سنا اور کالموں میں پڑھ رکھا تھا۔ اندھی عقیدت میں بہہ جانے کا ہرگز قائل نہیں ہوں۔عامل ‘نجومی’ قیافہ شناس’دست شناس ‘ستارہ شناس سب بجا لیکن جو بات قرآن کریم اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہ ہو’اسے ماننے پر جی آمادہ ہی نہیں ہوتا۔پروفیسر صاحب کے پاس بھی اس لئے جانے کی خواہش جاگی تھی کہ ان کا تعارف ایک سچے دانشور’عالم باوصف اور بے غرض پروفیسر کے طور پر ذہن میں نقش تھا۔
بغیر ملے ‘کوئی معاملات کئے کسی شخصیت کے بارے میں جو امیج ہمارے ذہنوں پر بنتا ہے وہ اس وقت تک ادھورا رہتا ہے جب تک ملاقات اور معاملات والا مرحلہ طے نہیں ہوجاتا۔ ہم آجکل میڈیا کے بنائے ہوئے بت پوجتے ہیں۔ چاہے یہ بت صحافتی ہوں’سیاسی ہوں’ مذہبی و مسلکی ہوں یا علم ودانش کے حوالے سے ہوں۔ملاقات میرا شوق ہے۔ میںکبھی بھی مردم بیزار نہیں رہا۔ میں نے اپنے دماغ میں براجمان بہت سے بتوں کو پہلی ملاقات میں ہی ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا ہے۔ پروفیسر احمدرفیق اختر کو لوگ بے حد عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بعض لوگوں نے انہیں کسی عامل یا قیافہ شناس کے طور پر اپنے ذہنوں میں بٹھا رکھا ہے۔پروفیسر صاحب سے ملاقات کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے بارے میں جو میرا تصور تھا وہ مزید مضبوط ہوا اور یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے ”بت شکنی” کے مرحلے سے گذرنا نہیں پڑا۔
میں قرآن پاک کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں’اور اسی کے ذریعے میں ”بائی چوائس” مسلمان ہوا ہوں۔ اور پروفیسر صاحب کو میں قرآنی تعلیمات کے حوالے سے ہی جاننا چاہتا تھا۔ سچ یہ کہ تقریباً تین گھنٹے تک جناب پروفیسر صاحب سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ان میں علمی تکبر بالکل نہیں۔انہوں نے قرآنی فکر سے مرصع جوابات دیکر میری تشفی کی۔جہاں تک پروفیسر صاحب کی ”کرامات” یا ”علم غیب” کے بارے میں ضعیف العقیدہ گروہ کی طرف سے پھیلائی جانے والی باتیں ہیں وہ پروفیسر صاحب کی ذات پر محض بہتان ہے۔وہ شریعت محمدیۖ کے سچے پیروکار ہیں اور لوگوں کو راہ راست کی طرف دلنشین انداز میں رغبت دلانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ بجھے دلوں میں امید اور اللہ کی رحمت کے چراغ جلاتے ہیں۔حرص و ہوس کے بندوں کو تعلق باللہ کی راہ پر ڈالتے ہیں۔
ان کے ہاں اپنی اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے حوالے سے امرائ’ وزرائ’ عسکری عہدیداران اور عمال حکومت سب جاتے ہیں۔ وہ نہ تو پھونکیں مارتے ہیں ‘ نہ تعویز بانٹتے ہیں اور نہ ہی کندھے تھپکاتے ہیں۔ وہ سراسر خیر کے داعی ہیں اور نفرتوں کو مٹانے اور محبتیں بانٹنے کا درس دیتے ہیں۔ہم آج کل مسلک اور عقیدت کے نام پر جن بے شمار توہمات اور خرافات کا شکار ہوگئے ہیںپروفیسر رفیق ایسے ماحول میں ایک گوشہ عافیت ہیں اور ان سے ملاقات کرنے کے بعدان کی علمی’ عقلی اور دانشمندانہ گفتگو انسان کو بہتر طرز زندگی کی طرف لوٹ آنے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ اشکالات’شکوک وشبہات اور تفکرات نے ہماری زندگیوں میں زہر گھول رکھا ہے’گوجرخان کے اس گوشے میں جانے سے ایک بار دل کا زنگ اتر جاتا ہے ۔ پروفیسر صاحب علم کا خزانہ ہیں۔قرآنی حوالوں سے رہبری کرتے ہیں۔ان کے پاس عقیدت میں اندھا ہو کر جانے کی بجائے دماغ کی آنکھیں کھلی رکھ کر کچھ سیکھنے کے لئے جانا چاہیے کہ ایسے لوگ کھلے دماغوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔”ترجیح اول خدا کی ذات بن جائے تو انسان کامیاب ہوجاتا ہے”۔”جس کا اللہ پر یقین ہو اس پر جادو اثر نہیں کرتا”۔”رب سے زندہ تعلق کا ہونا تعلق بااللہ کی درست تشریح ہے” لوگوں کی خامیوں پر نہیں خوبیوں پر نظر رکھو”۔ایسے سینکڑوں جملے ہیں جن پر ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اصل بات علم کے ان موتیوں پر عمل ہے اور گوجرخان کے اس گوشے میں اسی کا اہتمام ہوتا ہے۔

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply