Mar
05
|
Click here to View Printed Statement
خون ہی خون ہے۔ دو چار دن کے وقفے کے بعد پاکستانی سوچنے لگتے ہیں کہ شائد قاتلوں اور دہشتگردوں کو رحم سا آگیا ہے۔ ایک موہوم سی اُمید پیدا ہونے لگتی ہے لیکن اُمید کی ڈوری کا سرا پوری طرح تھام نہیں پاتے کہ پھر کسی چوک’ کسی چوراہے پر انسانی جسم کے خون میں لتھڑے ہوئے ٹکڑے ملتے ہیں۔ کوئی جلی لاش کسی ایمبولینس میں رکھی جارہی ہوتی ہے۔ بم دھماکہ’ریموٹ کنٹرول دھماکہ’ خودکش دھماکہ’ ٹارگٹ کلنگ’ بوری بند لاش’ اغوائ’ ہماری سماعتوں میں خوف ہی خوف بھر جاتا ہے۔ ایک پوری فضاء سوگوار ہوجاتی ہے۔صف ماتم لپیٹنے کی فرصت ہی نہیں رہتی۔ ہر انسان کش کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے والے ببانگ دہل اخبارات اور ٹی وی والوں کو فون پر بتاتے ہیں کہ جیتے جاگتے انسانوں کو چیتھڑوں میں تبدیل کرنے کا کارنامہ فلاں گروپ نے سرانجام دیا ہے۔ عورتیں’بچے’بوڑھے’ شیعہ’سنی’ مسلم’ غیر مسلم ۔کوئی بھی تو محفوظ نہیں ہے۔وردی اور شیروانی ‘امیر اور غریب سب ہی قتل گاہوں میں سربریدہ پڑے ہیں۔
بڑے بڑے دل گردے والے ٹی وی پر مقتولوں کی چلنے والی فوٹیج دیکھ نہیں پاتے۔ آگ اور خون کا یہ گھنائونا کھیل کب ختم ہوگا؟ یہی وہ سوال ہے جو شعور اور لاشعور میں سماء گیا ہے۔ پوری قوم نفسیاتی مریض بن گئی ہے۔ اُمید تھی کہ جناب میاں محمد نوازشریف کی شرافت کی بدولت شائد خون بہانے والوں کو شرم آجائے۔نہ ڈرون گرانے والوں کو شرم آئی اور نہ ہی بے گناہ پاکستانیوں کو بارود سے اڑانے والوں کو احساس ہوا۔ پاکستان کے لئے دونوں قوتیں’ دونوں نظریات’دونوں گروہ بے رحم قاتل ثابت ہورہے ہیں۔طالبان کے ہمدرد بھی ان کی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔جناب عمران خان کی حق گوئی اور امریکی جنگ کی شدید ترین مخالفت بھی مختلف دہشت گرد گروہوں کو غارت گری سے باز نہ رکھ سکی۔ عام پاکستانی یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ کیا یہ ملک زندگی اور سرمائے کے لئے محفوظ بھی ہے یا نہیں۔جہاں اوسطً روزانہ دو درجن سے زائد لوگ قتل کردیئے جائیں اور یہ عمل گزشتہ بارہ برس سے متواتر چل رہا ہو اور پچاس ہزار سے زائد انسان اس آگ میں جل چکے ہوں اور یہ ” قتل عام” کہیں تھمنے کا نام نہ لیتا ہو’وہاں زندگی کیسی اور خوشحالی کا تصور کیسا؟۔ اگر یہ خانہ جنگی ہے توخانہ کس کا تباہ ہورہا ہے؟ ہمارے عسکری اور سیاسی آکابرین آج تک سائے کا تعاقب کررہے ہیں۔آخر کوئی تدبیر کاگرکیوں نہیں ہوتی۔یہ قوم کس کے ہاتھ پہ لہو تلاش کرے۔ امریکی محفوظ ہیں ‘برطانوی محفوظ ہیں’عشرت کدے محفوظ ہیں’ بے حیائی کو پھلانگتے فیشن شو ہر روز منعقد ہوتے ہیں۔سودخور یہاں ہیں ‘اسمگلرز یہاں ہیں’ذخیرہ اندوز کھلے عام دھندہ کر رہے ہیں معاشرہ کے سارے مجرم آزاد ہیں۔زندگی کی رعنائیوں سے پوری طرح لطف اندوز ہورہے ہیں ۔اسلام کا نظام لانے کے خواہشمند انہیں کچھ نہیں کہتے وہ جب مارتے ہیں تو ملک کے محافظوں، پولیس والوں، سکول کے بچوں، مسجد کے نمازیوں، جنازہ پڑھنے والوں، وکلاء ججوں اور انصاف کے متلاشی عامیوں کے کچہریوں میں کو مارتے ہیں۔پاکستان کی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں ۔پاکستان کے دوست ملک کو ٹارگٹ کرتے ہیں ۔شیعہ سنی فساد کو بھڑکاتے ہیں۔آخر ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ حکومت ان کے اصل روپ سے پردہ چاک کیوں نہیں کرتی اور اگر وہ ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں تو ہر روز مرنے کی بجائے عوام کو سچ بتا دیا جائے ۔دعوے اور جھوٹے وعدے پہلے رحمان ملک کیا کرتے تھے اور اب شائد یہ ناخوشگوار فریضہ جناب چوہدری نثار کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر یہ گروہ فتنہ ساز ہیں اور ہم سب حق پر ہیں تو پھر اعلان جنگ کیوں نہیں ہوتا۔خدارا پاکستان کو قتل گاہ بنانے والوں کے خلاف اعلان جنگ کریں اور فتنہ سازوں کو واصل جہنم کرکے واپس لوٹیں۔ لیکن پہلے یہ بتا دیں کہ یہ واقعتاً پاکستانی ہیں جو گمراہ ہوگئے ہیں یا دشمن ممالک کے کارندے ہیں؟ کوئی تو بات کریں جس سے ہمارے آنسو تھم جائیں!۔ اسلام سے محبت رکھنے والے ہر شخص کو اللہ تعا لیٰ کے درج ذیل احکام ازبر ہونا چاہیں۔ ”جس نے ایک جان کو قتل کیا اس نے ساری انسانیت کو مارڈالا” ”جس نے ایک مسلمان کو جان بوجھ کر ہلاک کیا اس کی سزا جہنم ہے وہ وہاں ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب بھڑکے گا ۔ اللہ کی لعنت ہو گی اور اسکے لئے ذلت آمیز عذاب تیار ہے۔”