Mar
26
|
Click here to View Printed Statement
ابھی تک تسلی بخش وضاحت کا انتظار ہے۔حکومت پاکستان نے ”دوست ملک“ سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے کے پیچھے کارفرما معاملے کو افشاءنہیں کیا۔قوم کو تسلی دی گئی ہے کہ ” ایران اور سعودی عرب سمیت تمام برادر ممالک سے متوازن تعلقات قائم کئے جائیں گے“۔ ڈالر کی بے قدری کے پیچھے محرکات میں سب سے بڑا محرک یہی ڈیڑھ ارب ڈالرز ہیں جو مبینہ طور پر سعودی حکومت نے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی ذاتی درخواست پر مملکت اسلامیہ کو بطور تحفہ دیئے ہیں۔ ان میں سے نصف سے زائد قومی خزانے میں ”پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ“ کے عنوان سے منتقل ہوچکے ہیں اور باقی بھی عنقریب آنے والے ہیں۔اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر دوست ملک کی طرف سے کی جانے والی یہ مہربانی کسی وقت واپس لے لی گئی تو ڈالر پھر بے قابو ہو کر روپے کو روند ڈالے گا۔
ان تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تھری جی سپکٹرم کی نیلامی سے متوقع رقم حاصل نہیں ہوسکے گی۔ جہاں تک بیرون ممالک پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائی جانے والی بھاری رقوم ہیںتو یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ چین کی طرف سے 32ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا کوئی سیاسی فائدہ تو ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ 32ارب ڈالر یکدم قومی خزانے میں نہیں آنے والے اس کے لئے سال ہا سال درکار ہوں گے اور ”کون جیتا ہے تیر ی ذلف کے سر ہونے تک والا معاملہ ہے“۔
حکومت کے بعض سیاسی مخالفین کسی دوسری حکومت سے کسی ”مالی تحفہ“ کو ریاست کے خلاف سازش قرار دے کر مہیب خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ایک ذریعہ کے مطابق سٹاک مارکیٹ میں غیر ملکی بروکرز جلد ہی روپے کو پھر سے ایک سو دس تک لائیں گے کیونکہ وہ کسی صورت اپنی سرمایہ کاری کو ڈوبنے نہیں دیں گے۔
اگر سعودی عرب نے اتنی بڑی رقم تحفہ میں دے دی ہے تو پھر اس کے بدلے پاکستان کیا دے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو ڈالر کے تذکرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان خلیج کی ریاستوں میں جاری”عرب بہار“ کا راستہ روکنے میں اپنی عسکری اور اسلحی مدد فراہم کرے گا۔ ایم کیو۔ایم کا خیال ہے کہ سنی شیعہ عالمی کشمکش میں پاکستان نے سعودی بلاک میں شرکت کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا ہے تو پھر پاکستان ایک نئی خانہ جنگی میں مبتلا ہوجائے گا۔
راقم اس محفل میں موجود تھا جس میں چند کالم نگار اور سینئر صحافیوں کا وزیرپٹرولیم و قدرتی وسائل جناب شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ”گپ شپ“ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ چار ماہ قبل کی بات ہے۔راقم نے پوچھا”کیا پاک ایران گیس پائپ لائن کو آگے بڑھانے کے خلاف امریکہ سمیت کسی بھی ملک کا آپ پر کوئی دباﺅ ہے“؟۔
شاہدخاقان صاحب کا جواب تھا‘
”ہرگز نہیں اور یہ منصوبہ ہر حال میںمکمل ہوگا“۔ان کا یہ بیان اخبارات میں شائع ہوا۔ بعد میں بھی ایک ماہ قبل تک وہ اس منصوبے کی تکمیل کے سب سے بڑے داعی دکھائی دیتے تھے۔ لیکن اچانک ایک روز جناب عباسی نے انکشاف کیا کہ ”امریکی پابندیوں کے سبب یہ منصوبہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا“۔پھر اس پر مذیدگرہ لگائی۔” ایران نے حسب وعدہ پانچ سو ملین ڈالر مہیا نہیں کیے“۔ ادھر یہ بیانات چلے ادھر دوست ملک کی خیرسگالی کے چرچے بھی تیز ہوگئے۔ کیا ڈیڑھ ارب ڈالر پاک ایران پائپ لائن کے نعم البدل کے طور ملے ہیں؟۔ یہ راز بھی اب کوئی راز معلوم نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ کاروبار کی دنیا ہے۔ پاکستان کو ڈالروں کی ضرورت ہے۔ڈالر شیعہ ہوتا ہے نہ وہابی۔ یہ تو ایک عالمی کرنسی ہے اور اس کی وافر فراہمی ہمارے روپے کی کمر سیدھی رکھ سکتی ہے۔ فی الحال یہ کام جناب اسحاق ڈار نے کر دکھایا ہے۔ آج ڈار آگے ہی آگے جارہا ہے اور ڈالر پیچھے پیچھے منتیں کر رہا ہے۔ جو وزیرخزانہ کو محض منشی کہتے تھے آج وہی انہیں ماہر اقتصادیات کے طور پر تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔یہی ”گڈگورننس“ ہوتی ہے۔