Apr 07

Click here to View Printed Statement

گو کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہمیں اس کو بولنے میں ہچکچانا نہیں چاہئے لیکن انگریزی اب سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کوبین الاقوامی معیار کی تعلیم دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر حال میں انگلش میڈیم کو اپنانا ہوگا ۔
انگریزی نظام تعلیم کا ہرگز مطلب نہیں کہ انگلش پڑھنے والے بچے اسلامی تہذیب اور مشرقی طرز حیات سے دور ہٹا دیئے جائیں۔ افسوس کہ ایک گروہ نے انگلش میڈیم سکولوں کے نام پر مغربیت کو اپنا کلچر بنا دیا ہے ۔ ہماری آنے والی نسلیں تعلیم تو حاصل کر رہی ہیں لیکن تربیت سے محروم ہوتی جارہی ہیں مغربی طرز حیات ان کی فکرو نظر میں سما گیا ہے اور ہمارا بچہ انگریزی پڑھ کر ایک اچھا مسلمان انجینئر ‘ڈاکٹر’ بینکار اورمنتظم بننے کے بجائے وہ یورپی دنیا کے لئے کار آمد پرزہ بن رہا ہے ۔میں نے معاشرتی انحطاط کا بغور جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہماری نسل کو جہاں بیکن ہائوس ‘ روٹس’ سٹی اور فروبلز جیسے سکولوں کامعیار تعلیم درکار ہے وہیں ان کے اندر اسلام اور پاکستان سے محبت کو فروغ دینا وقت کی انتہائی ضرورت بن گیا ہے۔وطن عزیز کے مستقبل پر گہری نظر رکھنے والے اہل علم کو چاہیے کہ وہ جدید طرز کے سکول سسٹم کا اجراء کریں جس کا مقصد انگریزی تعلیم اور اسلامی تربیت کا ایک حسین امتزاج پیدا کرنا ہو۔ اس نظم کے تحت جاری مدرسہ دراصل ایک سکول ہی نہیں بلکہ معاشرے میں موجود مغربیت پسند اور اسلام پسندوں طبقوں میں ربط بڑھانے کی ایک تحریک بھی ہوگی۔ یہ ایک ایسا System of Education ہو جو اپنے زیر تعلیم بچوں کو پکا پاکستانی اور باعمل مسلمان بنائے اور اس کے ساتھ ساتھ جدید ترین طریقہ تدریس کے ذریعہ نارمل ذہانت رکھنے والے طالب علموں کو بھی جدید زندگی کی دوڑ میں دوڑنے کے قابل بنائے ۔ پسماندہ علاقے کے ذہین بچوں کو مہنگے ترین سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے سٹوڈنٹس کے مقابل لا کر کھڑاکر دے ۔

اس سسٹم میں بستوں کا بوجھ ہو نہ ہوم ورک کا جھجھنٹ۔ بچے کو اس کے فطری رجحان اور دماغی صلاحیت کے مطابق کلاس ورک کے ذریعے نصاب مکمل کروایا جائے۔ بچوں کو اوور لوڈز نہ کیا جائے۔ انہیں گھر میں کسی سے ٹیوشن پڑھنے کی ضرورت نہ پڑے ۔ قرآن سیکھنے کے لئے بھی کسی قاری کو گھر بلوانا نہ پڑے۔بلکہ سکول میں ہی تجوید اور ترجمہ قرآن کی سبقاً سبقاً تعلیم دینے کا بندوبست موجود ہو۔اٹھنے بیٹھنے کے آداب سے لے کر کھانے ‘پینے’گفتگو کرنے’ لباس پہننے اور سڑک پر چلنے تک کے طریقے سکول میں سکھائے جائیں۔ اس نظام میں بچوں کو دنیاکے بہترین سلیبس پڑھائے جائیں مگر اللہ پروردگار عالم اورا س کا فرمان عالیشان فوقیت نمبر ایک پر ہو۔ سائنس کی تمام شاخوں پر تعلیم دیتے وقت قرآن پاک کی آیات کے ذریعے ان کا دیہان ان کے خالق پر بھی مذکور رکھا جائے۔
بچوں کی صحت حصول تعلیم کیلئے پہلی شرط ہوتی ہے۔ ماہرین ڈاکٹرز پر مشتمل میڈیکل بورڈ سہ ماہی بنیادوں پر تفصیلی میڈیکل چیک اپ کرے۔ اور بیماری کی صورت میں مفت علاج کیا جائے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ بعض والدین اپنے بچوں کی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں اور بچے کو دوران تعلیم ہی سکول سے اٹھوا لیتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ والدیا گارڈین کی ناگہانی موت ہوتی ہے یا پھر مستقل اپاہجی کی بیماری۔ جوں ہی کمانے والے ہاتھ بے حرکت ہوتے ہیں’بیچارے بچوں کی تعلیم کا عمل رُک جاتا ہے۔ اس مشکل پر قابو پانے میں والدین کی مدد کے لئے میں نے ایجوکیشنل انشورنس کی سہولت حاصل کی جائے جس کے تحت حادثاتی موت یا مستقل معذوری کی صورت میں بچے کی تعلیم میٹرک تک جاری رہ سکے گی۔ اس کے علاوہ سکول میں نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کے رہنمائوں کے بارے ایک اضافی مضمون بھی شامل کیا جائے ۔ یہ کوئی بوجھل کتاب نہیں بلکہ بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق ہلکا پھلکا لٹریچر پڑھایا جائے تاکہ بچوں کے اندر بچپن سے ہی قائدانہ صلاحیتیںپیدا ہوسکیں۔
غرض یہ کہ ایسی درسگاہیں میں اس معاشرے کو میسر آجائیں کہ جہاں پڑھنے والا ہر بچہ ”خیر کم من تعلیم القرآن وعلمہ”۔
”تم میں سے بہترین وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں” اور قرآن پاک کے فرمان کے مطابق ”یتلو علیھم آیاتہ ویزکیھم” نبیۖ ان کو قرآن کی آیات کی پیروی کرواتے اور اس کے ذریعے ان کا تزکیہ نفس کرتے ہیں۔ کی علمی مثال بن جائے۔ اس کا ہاتھ مغرب کے دانشور کی نبض پر بھی ہو اور وہ ہمارے علماء کا ذہن بھی جانے۔ایسے بچوں کو کوئی بھی گمراہ نہ کرسکے گا بلکہ وہ ان تمام کے درمیان پل کا کام سرانجام دیں گے۔
میرا ایمان ہے کہ معاشرے اسی طرح ترقی کرسکتے اور اپنے اندر امن پیدا کرسکتے اور فتنہ کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔
بقول اقبال’
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply