Apr
09
|
Click here to View Printed Statement
زرداری اور مشرف دور میں مملکت پاکستان کو سیاسی طور پر ہی نہیں نظریاتی طور پر بھی فکری انتشار کی دلدل میںدھکیل دیا گیا تھا۔ آج بھی ہمارے تعلیمی نصاب میں ہمارے نظریاتی محاذ پر شخصی شب خون کے آثار پوری طرح نمایاں ہیں۔ امید رکھنی چاہیے کہ تعلیم جیسے اہم ترین شعبے میںاہل’اور درد دل رکھنے والے وزیر جناب بلیغ الرحمن پہلی کلاس سے لے کر اعلیٰ تعلیمی نصاب تک جابجا پھیلی ہوئی فکرو نظر کی تباہ کن بارودی مائنز کو صاف کرکے دل و دماغ کے لئے خالص اسلامی اورپاکستانی غذا فراہم کرنے کا سبب پیدا کرسکیں گے۔ آج جس قدر تعلیمی نصاب کی اصلاح ضروری ہے شائد ہی کسی اورشعبے میں ایسی ایمرجنسی تقاضا کرتی ہو۔
محترم ڈاکٹر مجید نظامی’ محترم نسیم انور بیگ (جنت نصیب) اور جنرل حمید گل جیسی ملی شخصیات کے سبب نظریہ پاکستان کے چراغ پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگاتے رہے ہیں اور ”روشن خیالی” کی تمام تر آندھیوں کے باوجود عام پاکستانی انہی چراغوں کے طفیل صراط مستقیم سے بھٹک نہیں سکے اور بالآخر فکری انتشار کے سرپرست جنہوں نے قائداعظم کے اس عظیم وطن کو تاریخ انسانی کے بہترین آفاقی نظریے سے محروم کرنے کی کوشش کی تھی آج پاکستان کے منظرنامے سے ہی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ ان کا ساتھ نبھانے کی قسمیں کھانے والے اپنے ماضی کو گناہوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہے کہ احساس جْرم کے زیر بار خود کلامی کرتے ہیں’
دامن کو لئے ہاتھ میں اب تو کہتے ہیںیہ قاتل
کب تک اسے دھویا کریں’ لالی نہیں جاتی
فکری لفنگوںاور نظریاتی اچکوں نے سیکولرازم کو خدا مان کر اس کی دن رات پوجا کی اور میرے وطن کے ان معصوم پھولوں کو تعلق بااللہ اور عشق رسولۖ سے دور رکھنے کے لئے قلم وقرطاس کا بے دریغ استعمال کیا لیکن اس ملک کی خوش بختی کہ اسے 23مارچ جیسے عظیم ایام ورثہ میں ملے ہیں۔ یوم پاکستان’ منٹو پارک اور قرارداد پاکستان’مینار پاکستان یہ وہ ٹھوس حقیقتیں ہیں جو کوئی طالع آزما مٹا سکا نہ مٹا سکے گا۔ جس عظیم قوم نے انگریز اور ہندو دونوں کے جبر کو لاالہ اللہ کے نعروں سے بے بس کردیا وہ امریکہ اور یورپ کے ڈالروں اور ڈرونز دونوں کو … کسی ایک لانگ مارچ ‘کسی ایک عوامی تحریک میں بہا سکتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔
میں اس خیال سے پوری طرح متفق ہوگیا ہوں کہ ”پاکستانی قوم معجزے کردینے والی قوم ہے اور دنیا بھر کے غلط اندازوں اور متعصبانہ تجزیوں کو غلط ثابت کرنے میں پاکستانیوں کو زیادہ وقت نہیں لگتا”۔
یہ نظرء یہ پاکستان کی حقانیت ہے کہ ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے منتخب وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی اور آج میاں نواز شریف بھی اسی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کی تعمیروترقی کی بات کرتے ہیں۔آج نظریہ پاکستان کسی ایک جماعت یا گروہ تک محدود نہیں رہا۔ جس طرح قیام پاکستان کے وقت برصغیر کے طول و عرض میں دو قومی نظریے نے ایک گونج پیدا کردی تھی آج پھر یہ ہوا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اسی نظریے کی کوکھ سے جنم لینے والی قرارداد مقاصد کو اپنی بنیادی دستاویز قرار دیتی ہے۔ ساٹھ باسٹھ برس میں قوم رسولۖ ہاشمی کو خوفناک جھٹکے دیئے گئے لیکن قوم ہر جھٹکے کو جھٹک کر آگے بڑھتی رہی ہے۔اور بقول اقبال مرحوم
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اْدھر نکلے اْدھر ڈوبے ادھرنکلے
آج ہم بہت ہی بہتر حالات میں 23مارچ منا رہے ہیں ۔ آج نظریہ پاکستان ہم سب سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم قرآن میں متعین کردیئے گئے ترقی وعروج کے اصول و ضوابط کی بنیاد پر پاکستان کی تعمیروترقی کے سفر پر پھر سے رواں دواں ہوجائیں۔ آج دو قومی نظریہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کو اس خطے اور اس دنیا میں آگے بڑھنا ہے’ تعلیم کے ذریعے’ تربیت کے ذریعے’اخلاق کے ذریعے اور اطوار کے ذریعے… اچھا پاکستانی’مثالی پاکستانی… اب ایسا پاکستانی جو ستاروں پر کمند ڈالے’ جو سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرے جونینو ٹیکنالوجی کاحامل ہو۔ اور یہ سب کچھ اس لئے کرے کہ قائداعظم کا یہ ملک’دنیا میں معاشی’سماجی اور سیاسی طور پر دوسرے ممالک کیلئے مثال بن سکے۔ اسلامی معیشت’اسلامی معاشرت’اسلامی سیاست اور اسلامی عدالت۔ اب ہماری جدوجہد صرف اور صرف تعمیر پاکستان کے لئے مخصوص ہوجانی چاہیے۔ اور قرآن مجید کی وہ حوصلہ افزاء آیت ہماری ذہن و قلوب میں ہمیشہ تازہ رہنی چاہیے کہ’
”انتم الاعلون ان کنتم مومنین”
”تم ہی غالب رہو گے اگر حقیقی مومن بن کر رہو گے”