May 29

Click here to View Printed Statement

وجیہہ الدین احمد انتہائی منکسر المزاج ہیں۔ انہیں اپنے مشن سے عشق ہے۔ ان کا پورا خاندان ہی شائد ایسے مشنری مزاج کے افرادپر مشتمل ہے۔ربع صدی سے علم وحکمت کی تعلیم عام کرنے والے اس علمی گھرانے کو اپنے سربراہ مولوی ریاض الدین احمدمرحوم کی قومی سطح کی کاوشوں اور علمی نوعیت کی سرگرمیوں پر بہت فخر ہے اور وہ ان کاوشوں کو اپنی خاندانی تاریخ کا ایک سنہری باب تصورکرتے ہیں۔مولوی ریاض الدین احمد مرحوم کے سب سے چھوٹے بیٹے جناب وجیہہ الدین احمد سے کراچی کے علاقے ناظم آباد میں واقع جناح یونیورسٹی فار وومن کے وسیع وعریض کیمپس میں ملاقات ہوئی۔جناب وجیہہ الدین احمد گوناں گوں مصروفیات کے باوجود خوش مزاج شخص ہیں۔ٹھہرے ہوئے لہجے میں اپنا مدعابیان کرنے کے ماہر بھی ہیں۔

”میرے والد مولوی ریاض الدین احمد علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ انہیں عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے ہمیشہ فکردامن گیر رہتی تھی۔اس حوالے سے وہ اکثر کہا کرتے تھے’

”اگر ہم اپنے ملک پاکستان میں خواندگی کی شرح تیزی سے بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں خواتین کی تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دینی ہوگی۔ میری نظر میں ایک پڑھی لکھی ماں ایک پڑھے لکھے باپ سے زیادہ بہتر طور پر اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرسکتی ہے ۔ اس کو اس طور پربھی محسوس کرسکتے ہیں کہ اگر آپ بچوں سے سوال کریں کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ تو لڑکوں کا جواب زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ انجینئر بنیں گے’ ڈاکٹر بنیں گے یا پائلٹ بنیں گے لیکن لڑکیاں زیادہ تر یہی خواہش کرتی ہیں کہ وہ بڑی ہو کر ٹیچر بنیں گی۔ گو کہ ہماری آنے والی پوری نسل کسی نہ کسی طور پر جذبہ رکھتی ہے لیکن میں اپنی بیٹیوں کے جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں جو صحیح معنوں میں ہماری آنئدہ نسلوں کی معمار ہیں”۔
مولوی ریاض الدین احمد نے اپنی اسی فکر کا ذکر قائداعظم سے بھی کیا۔آگرہ سے تعلق رکھنے والے اس خانوادے کے متحرک سپوت جناب الحاج مولوی ریاض الدین احمد تحریک قیام پاکستان میں پیش پیش رہے تھے۔آگرہ میں جب کبھی قائداعظمتشریف لاتے تو مولوی ریاض الدین کو بھی طلب فرماتے۔مولوی صاحب کے جذبے کو دیکھتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا’
”پاکستان بن رہا ہے۔پہلے پاکستان کے بنانے میں دن رات ایک کردیجئے پھر خواتین کی تعلیم کے لئے میرے نام سے یونیورسٹی قائم کرنا”پاکستان بن گیا اور حسب وعدہ و جذبہ مولوی ریاض الدین احمدنے آگرہ چھوڑ کر 1948ء میں کراچی میں پہلے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے تعلیم کی شمع فروزاں ہوتی گئی اور انجمن اسلامیہ سکول سمیت کئی تعلیمی ادارے کھل گئے۔1972ء میں بڑے بڑے تعلیمی ادارے قومیائے گئے اور جناب ریاض الدین احمد کے قائم کردہ اداروں کو بھی حکومت نے قبضہ میں لے لیا۔ لیکن 1984ء میں قومیائے گئے ادارے واپس مل گئے۔پھر زور وشور کے ساتھ یونیورسٹی کے قیام کاکام تیزی سے شروع ہوگیا”۔
1993ء میں سندھ اسمبلی نے جناح یونیورسٹی فار وومن کا چارٹر دے دیا۔حکیم سعید شہید قائمقام گورنر سندھ نے اس یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا اور یوں سرسید احمد کے ایک جانشین اورلیاقت علی خان کے مایہ ناز کارکن الحاج مولوی ریاض الدین احمد اور ان کے بیٹوں نے وہ عہد پورا کر دکھایا جو انہوں نے آگرہ میں قیام کے دوران قائداعطم کے ساتھ کیا تھا۔ وہ قائداعظم کے ادنیٰ سے سپاہی تھے جنہوں نے قائداعظم کے تمام ارشادات اور نصیحتوں پر عمل کرکے دکھا دیا۔نظم و ضبط’اتحاد’محنت ‘لگن’ایثار’قربانی ‘ہمت عزم وارادہ کا زندہ نمونہ تھے۔ معروف معلمہ محترمہ نورالصباح چغتائی نے ایک جگہ لکھاہے ‘
” ریاض الدین صاحب نہایت سادہ لباس پہنتے اور پرانی روایات اور رسم و رواج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے’ادارے میں داخل ہوتے ہی وہ ایک طائرانہ نگاہ استانیوں اور طالبات کے لباس پر ضرور ڈالتے اور اگر کوئی ٹیڈی یا قابل اعتراض لباس میں ہوتا تو اس کو وہیں ایک باپ کی طرح مشفقانہ انداز میں نصیحت کرتے اور کبھی سخت سست بھی کہہ دیتے۔ریاض الدین صاحب نہایت غریب پرور انسان تھے جب کوئی طالبہ ان کے پاس فیس معاف کروانے کے لئے درخواست لے جاتی وہ لازمی طور پر ہمدردی سے غور کرنے کے لئے مجھے لکھا کرتے۔انہوں نے کہہ رکھا تھا کہ ان بچیوں کی فیس پہلے معاف کی جائے جن کے سر پر باپ کا سایہ نہیں ہے اس کے بعد دوسری نادار طالبات کا خیال رکھا جائے یہی وجہ ہے کہ ہزاروں نادار اور یتیم بچیوں نے اس ادارے سے تعلیم پائی اور وہ بچیاں آج برسرروزگار ہو کر اپنے خاندان کی کفالت کر رہی ہیں۔”شاعر نے شائدایسی ہستیوں کے بارے میں کہا ہے’
ماناکہ اس زمین کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خارکم ہوئے تو ہیں گذرے جدھر سے ہم
ملاقات دو گھنٹے تک جاری رہی۔ساڑھے دس ایکڑ پر پھیلی اس یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کا دورہ بھی کرایا گیا۔ اس موقع پر علم و عرفان کا چلتا پھرتا نمونہ پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاروقی (وائس چانسلر) بھی موجود تھے۔ چھ ہزار بچیاں اور تین ہزار لڑکے یہاں زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں ۔انتہائی کم فیسوں میں جدید ترین طرز کی تعلیم کا حصول ایک بہترین صدقہ جاریہ ہے۔
جناب وجیہہ الدین احمد کی تجویز تھی کہ ڈاکٹر صاحب آئندہ جب آپ کراچی آئیں تو یونیورسٹی آڈیٹوریم میں آپ ایک مفصل لیکچر دیں۔میں اور میری علمی حیثیت کیا لیکن جی چاہتا ہے کہ دینی و دنیاوی تعلیم کے اس جیتے جاگتے شہر کے ساکنان کے ساتھ مل ضرور ملوں کہ قائداعظم کی اجازت پر ”جناح”لفظ کے ساتھ شروع ہونے والایہ تعلیمی ادارہ تحریک پاکستان کے دنوں کی یاد تازہ کرنے کا خوبصورت ذریعہ ہے۔

written by deleted-LrSojmTM


Comments are closed.