Jun
03
|
Click here to View Printed Statement
گزشتہ بجٹ میں اعدادوشمار کے ذریعے عوام سے جو وعدے کئے گئے وہ پورے نہیں ہوسکے۔بجلی’ گیس’ دہشت گردی’ بیروزگاری اور امن وامان کی صورتحال سب کے سامنے ہے محض نعروں اور طفل تسلیوں سے یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔آج بجٹ کا ایک سال پورا ہوگیا لیکن عام آدمی کی حالت نہیں بدلی اسے بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے کن مشکلات کا سامنا ہے’حکمرانوں کو اس سے سروکار نہیں۔مارکیٹ میں اشیائے صرف کی قیمتوں پر کنٹرول نہیں ہے’روزانہ اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں’ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گیس اور بجلی ‘پٹرول تین ایسی چیزیں ہیں’ ان کی قیمتوں میں ایک پیسہ بھی بڑھا دیا جائے تو ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ پورا سال ان تین چیزوں کی سپلائی اور ڈیمانڈ اس قدر رہی کہ سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہی دیکھتے رہے اور آئندہ بھی ان قطاروں میں کمی کی صورت دکھائی نہیں دیتی’نئے بجٹ سے خوش کن توقعات نہیں ہیں۔ یہ الفاظ کا گورکھ دھندا ہوگا۔پرتعیش اشیاء پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء پر ٹیکس لگانے سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ لگژری آئٹمز پر ٹیکس عائد کرے۔
بجلی’پٹرول’ دودھ’ چینی’ دالیں’ گوشت’گندم کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی تدبیر اختیار کی جائے’جب تک عام آدمی کو ریلیف نہیں ملے گا اس وقت تک بجٹ بے معنی ہے’ جہاں تک بیروزگاری کے خاتمے کا سوال ہے تو خاتمہ مشکل ہے’البتہ اس سمت میں کوئی مثبت پیش رفت بھی گزشتہ سال نہیں کی گئی’اگر قرضہ سکیم کو اتنا مشکل بنانا تھا تو پھر اس کے اعلان کا کیا فائدہ؟ وزیراعظم کی قرضہ سکیم سے نوجوان فائدہ نہیں اٹھا سکے۔اس طرح بیروزگاری ختم کرنے کے دوسرے اعلانات بھی نتیجہ خیز نہیں ہوپارہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(FBR) کے تمام شعبوں کی تنظیم نو کرے اور اس میں موجود بددیانت اور کرپٹ مافیا کو نکال باہر کرے۔ محکمہ انکم ٹیکس’کسٹمز کو کرپشن سے پاک کردیا جائے تو ریونیو کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔کئی برسون سے ہر سال بجٹ میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا ‘اس کی بنیادی وجہ ایف بی آر کی ناقص کارکردگی ہے’ ان کی تنخواہیں بھی ڈبل کرنے کے بجائے کارکردگی سے منسلک کردی جائیں تو مقابلے کے رجحان سے ٹیکس نیٹ بڑھے گا’ دوسرا ٹیکس گزار بنانے کے لئے ٹیکس فرینڈلی ماحول دینا بہت ضروری ہے۔نئے ٹیکس گزاروں کو ترغیبات دی جائیں’ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن قومی خزانے میں پہنچانے کا بندوبست کیا جائے تو اقتصادی معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔بڑے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں پر زرعی ٹیکس عائد کیا جائے’ گویہ کام حکومت کے لئے مشکل ہے ‘ مگر ایک بار اس کی روایت ڈال دی جائے تو چھوٹے زمینداروں کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔چھوٹے زمینداروں کو ٹیوب ویل کے استعمال پر بجلی بل میں چھوٹ دی جائے۔ہیوی انڈسٹریز پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی جائے۔خدمات و فلاحی اداروں کے ٹیکسوں میں جس قدر ممکن ہو’ کمی کردی جائے۔صنعت کاروں اور تاجروں کے ٹیکس گوشواروں کی اچھی طرح سے چھان بین کرنے کا میکنزم متعارف کراتے ہوئے بڑے صنعتکاروں اور تاجروں پر ٹیکس بڑھا دیاجائے۔پروفیشنل ٹیکس میں بھی اضافہ ناگزی ہے۔اوورسیز پاکستانیوں کے زرمبادلہ پر بھی ٹیکس بڑھا دیا جائے۔ زرعی مشینوں اور آلات والی فیکٹریوں کے ٹیکس میں کمی کی جائے’تعمیراتی انڈسٹری پر ٹیکس میں اضافہ کیا جائے۔ ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ انڈسٹری کے ٹیکسوں میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ادویہ اور ہسپتالوں کے روزمرہ ضرورت کے سامان پر ٹیکس کم کیا جائے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا ایک طریقہ کار موجود ہے اور کم از کم تنخواہ آٹھ ہزار روپے ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے’حکومت ہر سال بجٹ میں کم از کم اجرت کا اعلان تو کردیتی ہے ‘لیکن اس پر عملدرآمد کرنے کا سرے سے کوئی میکنزم موجود نہیں۔مہنگائی میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہورہا ہے ‘اس تناسب سے مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت 12ہزار روپے ہونی چاہیے اور پرائیویٹ ادارے جو اس پر عمل نہ کریں’ حکومت ان سے پوچھ گچھ کے لئے طریقہ کار وضع کرے’سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سالانہ کے حساب سے اس بار کم از کم 25فیصد اضافہ ہونا چاہیے۔
بھارت کے ساتھ تجارت میں کوئی حرج نہیں’اتنا خیال رہنا چاہیے کہ ہم اپنی خودداری کی قیمت پر تجارت نہ کریں۔بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت کئی تنازعات ہیں’لیکن ان تنازعات کے ساتھ ساتھ اقتصادی بہتری کے لئے مختلف شعبوں میں بھارت سے تجارت کی جانی چاہیے۔چین ترکی اور دوسرے دوست ممالک کے ساتھ بھی جن شعبوں میں تجارتی تعاون کے امکانات ہیں’ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے’اس سے اقتصادی ترقی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔تجارت میں بھی یہی اصول کار فرما ہوتا ہے’جہاں اقتصادی طور پر فائدہ نظر آئے وہاں ضرور آگے بڑھ کر معاہدے کرنے چاہیں اور جہاں امکانات کم دکھائی دیں’ وہاں اجتناب کرنا چاہیے۔
زرعی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ بیچوں پر کسانوں کا حق تسلیم کیا جائے اور پلانٹ بریڈرزرائٹ ایکٹ( جو گزشتہ کئی برس سے پارلیمنٹ میں زیر التواء ہے)کا نفاذ کیاجائے۔مڈل مین کا کردار ختم کرکے کسانوں کو اپنی پروڈکشن کا معقول اور بروقت معاوضہ ملے تو فی ایکڑ پیداوار بڑھ سکتی ہے۔اقتصادی شعبے میں بھی سرمایہ کاروں کو ترغیبات دینے کے علاوہ ٹیکنیکل افرادی قوت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ان کے معاوضوں میں معقول اضافے سے پیداواری ہدف بڑھ سکتا ہے۔ یہ تمام تر اقدامات کرنے سے یقینااقتصادی ترقی کا پہیہ بہتری کی جانگ گامزن ہوگا’اصل مسئلہ یہ نہیںبلکہ نیتوں کا بحران ہے’جب تک حکمران طبقے کی نیت ٹھیک نہیں ہوگی اور 80فیصد عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور نبی کریمۖ کی تعلیمات و احکامات کی روشنی میں اقدام نہیں کریں گے’ اس وقت تک بہتری کی توقع عبث ہے۔ اگر آج حکمران طبقہ یہ طے کرلے کہ وہ عام آدمی کی فلاح وبہبود کے لئے ٹھوس اقدام کرے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہ ہوسکے’کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں 52فیصد نوجوان’چار موسم’بہترین زرخیز زمین’ دل و جان سے محنت کرنے والے جفا کش’زمیندار دیئے ہیں’جن کی بدولت قدرتی وسائل حاصل کیے جاسکتے ہیں۔پاکستان مواقع کی سرزمین ہے ‘قوم کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے فصلیں لگائی جائیں۔مصنوعات تیار کی جائیں۔غیروں پر انحصار ترک کیا جائے اور اپنے قوت بازو پر انحصار کرکے خود کفالت کا ہدف حاصل کرنا بہت ضروری ہے’ ورنہ بھکاری قوموں کا حشر تو سب کے سامنے ہے’ان کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ہم زندہ اور پائندہ قوم ہیں’ ہمیں جوان جذبوں کے ساتھ بلند ہمتی سے کام لیتے ہوئے امید کے نئے چراغ جلانے اور آگے بڑھ کر کامیابیاں سمیٹنا چاہیں۔