Jul
15
|
Click here to View Printed Statement
پاکستان میں انفرادی نیکیوں کی بہار رہتی ہے ۔ زہدوتقویٰ کی ایسی ایسی مثالیں ہیں کہ قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ شائد انہی نیک بندوں کی بدولت ہمارے اجتماعی گناہوں کی ابھی پکڑ نہیں ہوئی اور ہم گرتے پڑتے قومی زندگی کے سفر پر گامزن ہیں۔ اگر پاکستانی معاشرت سے محدود ے چند متقی لوگوں کو منہا کردیا جائے تو یوں محسوس ہوگا کہ اسلامی اقدار اور تعلیمات کا قدم قدم پر مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ اس احساس کو مہیمزاس وقت لگتی ہے جب رمضان المبارک کا مقدس ماہ اپنی رحمتیں لئے آپہنچتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ اس رحمتوں والے مہینے کا استقبال ضرور کرتا ہے’ لیکن اس استقبال کے پیچھے کارفرمانیت تقویٰ اور پرہیزگاری نہیں بلکہ نمودونمائش فضول خرچی’ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی جیسے منفی رجحانات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اس استقبال میں آج کل پیش پیش ہمارا میڈیا ہے۔استحصالی میڈیا اس قدر بے رحم ہے کہ وہ صلہ رحمی’ ایثار’ پردہ پوشی اور حاجت روائی جیسے انتہائی خوبصورت ‘انسان پرور اور صحیح اسلامی جذبوں کودبوچ کر ان کی جگہ ”ریٹنگ” اور” گلیمر” کو حاوی کررہا ہے۔روزہ سادگی کا درس دیتا ہے لیکن ہمارے ٹی وی چینل نے روزے جیسی عبادت کو اللہ اور بندے کے تعلق سے ہٹا کر رمضان شو میں الجھا دیتا ہے۔شو کے میزبان کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ اس پروگرام کے دوران متعدد مرتبہ لباس تبدیل کرے۔ اگر پروڈیوسر اس کا اہتمام کرسکے تو آپ دیکھیں گے کہ میزبان مشہور برانڈ کے کئی کئی لباس زیب تن کرکے آپ کے سامنے آئے گا۔ میزبان اپنے مذہبی پروگرام میں ”ڈریس شو”کا مظاہرہ کرتا ہے اور اس طرح لہراتا اور مٹکتا ہے گویا مردانہ ”کیٹ واک” کر رہا ہے۔ میزبان اگر عورت ہے تو پھر انتہاء کوئی نہیں۔ وہ ایسے ایسے بھڑکیلے لباس پہن کر جلوہ گر ہوتی ہیں کہ پروگرام میں بلائے گئے ”مذہبی سکالر”اپنے تقوے کو باربار بکھرتا محسوس کرتے ہیں۔کسی مذہبی عالم کے بارے میں نہیں سنا کہ اس نے ایسے نمائشی مذہبی پروگراموں میں جانے سے انکار کردیا ہو۔مسابقت کی ایک دوڑ لگی ہے۔سفارشیں کرا کے ”علمائے دین” اچھی ریٹنگ والے چینلز پر نمایاں ہونے کی تگ ودو میں رہتے ہیں۔ ہر افطاری اور سحری پر کم و بیش تمام ٹی وی چینلز سادگی کا جنازہ نکالتے ہیں اور بیچارہ سماج دولت اور شہرت کے اس شیطانی امتزاج کے ہاتھوں یرغمال بنا بے بس دکھائی دیتا ہے۔
سادگی کا مزید خاتمہ کرنے کے لئے دسترخوان اور اس پر سجائے گئے کھانے سونے پر سہاگے کا کام کرتے ہیں۔ جس ملک کے بیس کروڑعوام میں سے سولہ کروڑ لوگ خطہ غربت پر رینگتے رہتے ہوں وہاں روزہ اور اس کے تقاضے ایسے ہوگئے ہیں کہ عملاً یہ عبادت بھی دولت مندوں کے لئے مختص ہوتے دکھائی دے رہی ہے ۔جو کوئی افطاری اور سحری کا شاہانہ اہتمام کرسکے گا وہی میڈیا کے معیار پر پورا اترسکے گا۔باقی صرف دور بیٹھے ان فائیوسٹار روزہ داروں کو دیکھا کرینگے۔اور غریب غرباء اور ان کے بچے ہوئے کھابوں سے پیٹ پوجا پرخوش ہوجائیں گے۔ہمارے میڈیا کا کمال یہ ہوگا کہ روزہ صرف شوبزنس کی اداکارائوں اور اداکاروں تک محدود رہے گا۔اشتہاری کمپنیاں ہوں گی’کئی عامر لیاقت ہوں گے’فلمسٹارنور جیسی درجنوں میزبان ہوں گی اشتہاری انعامات ہوں گے ‘قیمتی سیٹ لگا کر نعت خوانی ہوگی۔ ایک میلے ٹھیلے کا ساماں ہوگا۔ روح تو پہلے ہی غائب ہے جسم بھی ننگے ہوتے جائیں گے۔
امت مسلمہ کی تاریخ میں یہ اعزاز بھی پاکستان کے میڈیا اور اس کے پشت پناہ کاروباری طبقات کو حاصل ہے کہ پاکستانی عوام کو فنکاروں اور مشکوک کردار کے حامل اداکاروں اور بدکردار اداکارائوں کے ذریعے روزہ اور اس کے تقاضے پر لیکچر دیئے جائیں گے۔کوئی سنجیدہ فکر’ باکردار اور اچھے برے کی تمیز سکھانے والے پڑھا لکھا انسان اس قابل ہی نہیںرہے گاکہ وہ ماہ صیام میں ٹی وی سکرین پر سادگی سے آئے اور ٹھہرے ہوئے لہجے اور دل میں تاثیر پیدا کردینے والے انداز میں لوگوں کو دین کی کوئی بات سمجھاسکے۔
انفرادی طور پر نیک لوگوں کی تعداد قابل ذکر ضرور ہے لیکن بے حیا میڈیا کے شکنجوں میں جکڑے اس بے جان معاشرے اوربے سمت سماج کے ہوتے ہوئے رمضان شریف جیسے رحمتوں بھرے مہینے کے روحانی اثرات سے ہم کبھی بھی فیضیاب نہ ہوپائیں گے۔حسد’بغض’ذخیرہ اندوزی’منافع خوری ‘بدکلامی اور بددماغی جیسی بیماریاں ہماری اجتماعی صحت کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کرتی رہیں گی۔
کاش کہ ہم اس استحصالی میڈیا کا بائیکاٹ کرنا شروع کردیں اور چینلز کو یہ اختیار نہ دیں کہ وہ ہماری عبادت کو بھی ہم سے چھین لے!قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے’
”جو کوئی مسلمانوں میں بے حیائی کو فروغ دے گا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے”
”اللہ تعالیٰ ہم کو حکم دیتا ہے عدل کا’احسان کا اور رشتہ داروں کے حقوق پورے کرنے کا اور اللہ تم کو فحاشی سے منع کرتا ہے اور منکرات سے اور سرکشی سے۔ اللہ تم کو ان باتوں کے ذریعے وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔القرآن۔