Jul
17
|
Click here to View Printed Statement
سیاسی رہنمائوں کی بدزبانی سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے ۔اسلام نے بہتان باندھنے اور جھوٹ گھڑنے سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔انسانی ضمیر بھی یہی درس دیتا ہے کہ محض محفل کو گرمانے اور جلسے کو قابو کرنے کے لئے بے بنیاد الزامات کا سہارا لینا کمینی حرکت ہوتی ہے۔ہمارے سیاستدان خود کو بڑی حد تک بالغ النظر کہتے ہیں لیکن وہ سیاسی مخالفت میں تمام اخلاقی حدود پھلانگ جاتے ہیں۔بعض اوقات تو وہ اپنے مخالف کی نجی زندگی کے معاملات کو بھی چوک چوراہے میں لے آتے ہیں۔ لسانی بدکاری کے لئے جناب شیخ رشید ہی کافی تھے۔اب تو ہر کوئی اسی گمراہی کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔
یوں تو جناب عمران خان کے چاہنے والے انہیں قائداعظم ثانی قرار دیتے ہیں لیکن قائداعظم محمد علی جناح کے طرز حیات’طرزتکلم اور طرز سیاست سے شائد عمران خان کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔ کم از کم یہ نہیں ہوسکتا کہ قائداعظم نے کبھی مجمع کی ڈیمانڈ کے سامنے اپنے ججے تلے انداز تقریر کو ترک کردیا ہو۔بدکلامی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عمران خان نے ہماری سیاست میں ”سونامی” جیسے عذاب کو سیاسی اصطلاح کے طور پر متعارف کروایا۔ شریف برادران کو ڈینگی برادران’ کہا اور ”اوئے نوازشریف”اور توئے شہبازشریف جیسے بازاری الفاظ کو رواج دیا۔جلسے کی زبان مختلف ہوسکتی ہے لیکن بدزیب نہیں ہوسکتی۔سیالکوٹ والے جلسے میں جناب خان صاحب نے دھاندلی کا واویلا کیا اور اسی واویلے کے دوران سابق چیف جسٹس کو کرپٹ کہا اور بآواز بلند یہ دعویٰ بھی کردیا کہ چیف جسٹس نے الیکشن میں دھاندلی کی قیمت وصول کر لی ہے اور ان کے لئے ارسلان افتخارکو بلوچستان انوسٹمنٹ بورڈ کا وائس چیئرمین بنا دیا گیاہے۔بغیر ثبوت کے آپ کسی کو نام لیکر کرپٹ’ بے ایمان’خائن ‘چور اور جو منہ میں آئے کہتے جائیں یہ کہاں کی سیاسی بلوغت ہے؟ خصوصاً جب آپ کا اپنا دامن بھی ہرطرح کی غلاظتوں سے لتھڑا ہوا ہو۔ ارسلان افتخار کو اتنے بڑے حملے کی توقع نہیں ہوگی۔ان کے بارے میں بھی بہت سی کہانیاں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔انہوں نے جوابی حملہ کیا اور بداخلاقی کی انتہا کردی۔ دین ہمیں پردہ پوشی کی ترغیب دیتا ہے۔خصوصاً جب کوئی گہنگار اپنے ماضی کو بھلا کر صالحیت کی زندگی گزارنے کا عہد کرے تو پھر اس کے ماضی کو کریدنا احسن عمل نہیں رہتا۔ ارسلان افتخارنے ماہ صیام کے تقدس کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔”ناجائز اولاد”۔”زانی”۔”بدکردار” ایسے ایسے لفظ گھروں میں بیبیوں’بہنوں نے سنے اور سن رہی ہیں کہ روزہ داری کی ساری پاکیزگی دھری کی دھری رہ گئی ہے۔ارسلان کے حملے کے بعد جناب عمران خان کو خاموشی اختیار کرنی چاہیے تھی لیکن انہوںنے مراد سعید کو نوازشریف کو جھوٹا اور خائن ثابت کرنے کے لئے پریس کانفرنس کردی۔یہاں تک تو معاملہ پھر بھی قابل برداشت تھا لیکن تحریک انصاف کے میڈیا ونگ نے سوشل میڈیا پر محترمہ مریم نواز کے حوالے سے انتہائی شرمناک جملے اور تبصرے پوسٹ کرنا شروع کر رکھے ہیں۔شہباز شریف کے فرضی معاشقے بھی مشتہر کئے جارہے ہیں۔اس عفوودرگذر کے مہینے اور نفرتیں مٹانے والے مہینے میں اس قدر نفرتیں اور اخلاق باختہ بیانات اور تبصرے۔لگتا ہے ان بے مہار سیاسی قائدین کو اللہ کا اورنہ ہی بندوں کا کوئی خوف ہے۔
مولانا فضل الرحمان ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ان سے سیاسی بداخلاقی کی توقع نہیں ہوتی۔لیکن انہوںنے خود کو مسلمانوں اور عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے دیا۔ یہ کیسی مسلمانی ہے؟ عمران خان کی سیاسی اچھل کود سے شدید اختلاف ہوسکتا ہے’لیکن ان کی حب الوطنی اور ان کے دین و ایمان کے حوالے سے ایسی گفتگو کذف کے زمرے میںآتی ہے۔مولانا جانتے ہیں کہ ایسی گفتگو کرنے والے کو کذاب کہا جاتا ہے۔
اے سیاسی رہنمائو! خدا کا خوف کرو۔ قوم کے اخلاق سنوارنے کی فکر کرو۔ اپنی زبان کی حفاظت کرو۔رمضان المبارک کے تقدس کا احترام کرو کہ روزہ دراصل پاکیزگی کے حصول کا ذریعہ ہے!