Aug
12
|
Click here to View Printed Statement
سوال یہ ہے کہ عوام اور سیاست کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے۔اگر اس ملک کی آبادی بیس کروڑ مان لی جائے تو مئی 2013ء کے انتخابات میں انتخابی عمل میں حصہ لینے والے پاکستانیوں کی کل تعداد صرف ساڑھے چار کروڑ بنتی ہے۔یہ ساڑھے چار کروڑ لوگ کل آبادی کا صرف بائیس فیصد بنتے ہیں ۔ یعنی 78فیصد وہ پاکستانی ہیں جو مختلف وجوہات کی بناء پر اس انتخابی عمل سے دور رہے ہیں ۔ مرکز میں حکومت بنانے والی جماعت کو ڈیڑھ کروڑ لوگوںنے ووٹ دیا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکمرانی کا حق حاصل کرنے والی جماعت کو پچھتر لاکھ ووٹ پڑے اور سندھ میں حکمران گروہ کے حصے میں 68لاکھ اور اسی طرح ایم کیو ایم اور آزاد امیدواران کو ووٹ ڈالے گئے ۔ ان تمام اعدادوشمار سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ سیاستدانوں کا عوام کے صرف بائیس فیصد حصے سے تعلق ہے۔ باقی عوام کو نہ تو سیاست پر اعتماد ہے اور نہ ہی سیاستدانوںکو اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں ۔یا دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ لیں کہ پاکستانی قوم کا بہت بڑا حصہ سیاسی نظام سے اس قدر مایوس ہوچکا ہے کہ انہیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں کہ ملک میں فوج کی حکمرانی ہے۔(ن) کی حکومت ہے۔ طاہر القادری کا انقلاب یا عمران خان کا نیا پاکستانعام آدمی کو شکایت کیا ہے؟ سڑک بند ہے ‘دھوپ میں کھڑنا ہونا پڑتا ہے’ دل سے گالیاں نکلتی ہیں لیکن عام آدمی کچھ نہیں کرسکتا۔جلسہ ہے جلوس ہے۔مارکیٹ بند پڑی ہے ۔کاروبار ہو نہیں سکتا۔ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ دھرنے ہوتے ہیں تو مال و جان کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے۔ ووٹ ڈالیں تو بھی مصیبت۔ نہ ڈالیں تو بھی مصیبت۔جب مصیبت ہی گلے پڑنی ہے تو ضرور ووٹ ڈال کر یہ مصیبت خریدنی ہے۔
مشرف دور سے پہلے عام لوگوں کا خیال تھا کہ چلیں اب کی بار فوج آئی ہے تو کم از کم سیاسی وارداتیوں سے نجات مل جائے گی۔کاروبار بڑھے گا’ بے روزگاری کم ہوگی اور روٹی چلتی رہے گی۔ لیکن مشرف کے اندرسے بھی بالآخر ایک سیاستدان برآمد ہوا اور یہی لوگ جو اب ”انقلاب” کے میمنہ و مسیرہ بنے دکھائی دیتے ہیں یہ باوردی مشرف کے دائیں بائیں جلوہ گر رہتے تھے۔ مشرف نے بھی لوگوں کو پکڑ پکڑ کر ریفرنڈم میں انگوٹھے لگوائے اور عوام جو پہلے ہی لاتعلق تھے مزید لاتعلق ہوگئے۔ پھر پی پی پی والے آگئے۔ اب نوازشریف ہیں اور عمران خان ایک صوبہ کی بجائے پورے مرکز پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے لئے وہ عوام کو ذہنی طور پر یرغمال بنانے کے لئے نت نئے نعرے گھڑتے ہیں۔دھاندلی دھاندلی کا شور مچا تے ہیں۔
سوات میں بجلی کے ایک منصوبے کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے انہوںنے عوام کو جھانسہ دیا ہے کہ ”اگر اقتدار ملا تو بجلی دو روپے فی یونٹ کردوں گا”۔ حاضرین نے تالیاں بجا کر اس اعلان کی داد دی کیونکہ حاضرین عام لوگ نہیں بلکہ پروفیشنل ووٹرز ہوتے ہیں جن کا کام بوقت ضرورت ”شیم شیم”اور ”ویلکم ویلکم” کے نعرے لگانا ہوتا ہے۔ جانتے وہ بھی ہیں کہ دو روپے میں تو ٹافی نہیں آتی پھر بجلی کا یونٹ کیسے آئے گا لیکن پارٹی کے ساتھ وفاداری کا تقاضا ہے کہ لیڈر کے ہر جھوٹ کو ”الہام” سمجھ کر سنا جائے ۔
خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ نے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنی بجلی اپنے پاس رکھیں گے اور پنجاب
کو بجلی نہیں دیں گے۔ اس پر بھی تالیاں بجائی گئیں۔
جناب ڈاکٹر طاہر القادری کی پارٹی کو چونکہ ووٹ نہیں ملتے اس لئے انہوں نے مسلح انقلاب کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ ان کی ملازم خواتین اور ان کی نظریاتی پیروکار بچیوں نے اپنے قد سے بڑے بڑے ڈنڈے ہاتھوں میں لے لئے ہوئے ہیں۔
عام آدمی نے گزشتہ 68برسوں میں ہر طرح کے نعرے سنے’ہر طرح کی تحریکیں بھگتیں’ہر طرح کی جمہوری اور اسلامی جماعتوں کا پلو پکڑا۔لیکن حالات بدلے تو صرف لیڈروں کے بدلے ہیں۔ عام آدمی نے تو گھر کا سامان یا زمین کا قطعہ بیچ کر جان ہتھیلی پر رکھ کر دیار غیر کا قصدکیا یا ملک میں رہتے ہوئے ہی بے روزگاری اور غربت کو صبر سے گلے لگائے رکھا ہے۔ عام آدمی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ عمران خان کہاں کا غریب ہے۔ جو خود بیرون ملک پڑھتا رہا۔ جس کے بچے باہر پڑھتے ہیں جس کا سینکڑوں ایکڑ اراضی پر پھیلا فارم ہائوس ہے۔ اس کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی؟ ان کے والد گورنمنٹ ملازم تھے۔ ان کی تنخواہ میں پانچ مرلے کا گھر نہیں بن سکتا تھا پھر یہ زمان پاک کی کوٹھیاں اور ایچی سن کی فیسیں کون ادا کرتا رہا۔
ملک کے اندر سیاسی طبقہ اس قدر متحرک ہے کہ وہ چند ہزار ہو کر بیس کروڑ لوگوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ ذہنی ‘معاشی اورجسمانی طور پر یرغمالی عوام کس سے فریاد کریں ۔بقول شاعر بچ کر اب کہاں جائیں اس سیاسی جنگل میں۔ ایک طرف درندہ ہے ایک طرف شکاری ہے!
کوئی حل تو نہیں لیکن ایک طریقہ ہے کہ عام لوگ اپنے خالق حقیقی سے التجا کریں ۔نماز استسقاء ادا کریں’الٹے ہاتھ کرکے گڑ گڑائیں۔ یا رب اس بستی کو امن کی بستی بنا دے۔جہاں ہم سکون کے ساتھ اپنے بچوں کے ہمراہ زندہ ہی رہ سکیں!