Sep 10

Click here to View Printed Statement

کائنات کا دولہا انسان اللہ پروردگار عالم کی تخلیق کا بہترین شاہکار ہے۔ رب کائنات نے اسے نعمتوں کے اتنے
انبار عطا فرما دیے کہ جنہیں دیکھ کر ذرا سا غور کرنے پر ہمیں اللہ نظر آنے لگتا ہے۔ اللہ خود اپنے کلام میں فرماتا ہے”تمہارے نفوس میں میری نشانیاں موجود ہیں تو کیا تم ان پر غور نہیں کرتے”۔
ہم اپنی ذات سے ذرا باہر نظر دوڑائیں تو سورج’ چاند’ ہوا’ پانی ‘ستارے آسمان’زمین اور جانور سب کے سب قدرت کی نشانیاں ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت انسان کی ایسے خدمت میں جتے ہوئے ہیں جیسے ان کا ہم سے بہت بڑا کام پھنسا ہوا ہے۔ ان پر نگاہ دوڑا کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سورج چمکتا’چاند دمکتا’ستار روشن’ سمندر موجزن’ ہوائیں چلتی’ پھول کھلتے’پھل پکتے اور جانور سواری و غذا کے لئے پیدا ہی ہمارے لئے کئے گئے ہیں۔ احساس کچھ یوں ہوتا ہے کہ جیسے ہم آقا ہیں اور یہ ہمارے خدمت گزار حالانکہ اصل صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان سب سے پوچھیے کہ اگر انسان نہ ہو تو تمہاری صحت پر کیا اثر پڑے گا تو یہ سب کہیں گے ہماری بلا سے۔ مگر انسان ان کے بغیر ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔غرض ساری کائنات اپنا کام مالک حقیقی کی مرضی کے عین مطابق کر رہی ہے مگر انسان ہے کہ ظالم بھولا ہوا ہے۔
گھوڑے کو مالک صرف چارہ ہی ڈالتا ہے تو وہ اس کے بدلے اس کے لئے لڑ کر اپنی جان دے دیتا ہے۔ مگر انسان اپنے مالک کا بڑا ناشکرا ہے اور اس کی وجہ سورہ عادیات میں جو بتائی گئی وہ ہے مال سے بے پناہ محبت:
دنیا میں کسی ادارے کا مالک تیوری چڑھا لے تو ملازم فوراً ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاتا ہے مگر کارخانہ قدرت کا حکم کئی بار جھنجوڑ چکا مگر ہم اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔آذان کی پکار تو ہمارے کانوں سے ٹکرا کر واپس چلی جاتی ہی رہی ہے لیکن اب تو ہم چھوٹے عذابوں کی ایک سیریز کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود بھی راہ حق کی طرف جانے سے کترا رہے ہیں۔
وہ ہمیں بار بار اپنے کلام میں بتا چکا ہوں کہ میں نے یہ تمام کائنات تمہارے لئے مسخر کردی ہے مگر تم کو اپنے پیار کے لئے پیدا کیا ہے۔ وہ واضح طور پر آگاہ کرتا ہے کہ تمہاری تخلیق کا مقصد میری محبت اورمیری مخلوق سے پیار ہے۔
وہ خبردار کرتا ہے کہ اگر تم مجھ سے محبت نہیں کرو گے تو میں عنقریب تمہاری چھٹی کروا دوں گا اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کروں گا جو کہ مجھ سے محبت کرے گی اور میں ان سے محبت کروں گا۔
وہ کہتا ہے کہ میں تم سے رزق روزی نہیں مانگتا۔رزق رساں تو میں ہوں۔ اس لئے تمہاری روزی کا میں سامان کروں گا تم تو بس میری طرف پیار کی نگاہ اٹھا کر کبھی دیکھ ہی لیا کرو۔
وہ ہم کو بار بار اپنی نعمتوں کی یاددہانی کراتا ہے کہ شائد نگاہ ان کی طرف مبذول کرے تو نگاہ شکریہ اوپر بھی اٹھا لے۔مگر ہمارا حال تو یہ ہے کہ گائے نے اگر دودھ پلایا ہے تو ہم نے اسے ماتا بنا کر اسی کے آگے سر تسلیم دل خم دیا۔اللہ کو ہم سے گلا ہے کہ گوبر اور خون کے درمیان سے ظالمو تم کو خالص دودھ تو میں نے پلایا ہے اور تم نے ساقی پر نگاہ کرنے کے بجائے برتن کے آگے سر نیاز جھکا دیا۔ جبکہ گائے کو تو یہ خبر بھی نہیں کہ یہ سارا نظام کیسے چل رہا ہے۔ رب کا فرمان ہے کہ سورج اور چاند کو سجدہ کرنے والو اسے پہچانو جس کے ہاتھ میں ان کی رسی ہے۔
دنیا میں ماں جب بچے کو نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنا کر سامنے کھڑا کرتی ہے اور پوچھتی ہے کہ سب کچھ کس نے دیا ہے تو بچہ اگر صرف اتنا کہہ دے کہ ”ماں تو نے” تو صرف اتنا کہنے پر ہی ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ وہ بچے کو درجنوں بوسے دیتی ہے۔ یہی حال مالک کا ہے جب بندہ نہا دھو کر آئینہ کے سامنے کھڑا ہو اور یہ کلمات ادا کرے کہ اللہ تیرا شکر ہے تو مجھے خوبصورت شکل عطا فرمائی۔ میری سیرت کو بھی خوبصورت بنا دے تو عرش سے آواز آتی ہے۔ ”بندے جا تیری اس خوبصورت بات پر میں نے تیرے پچھلے گناہ معاف کردیئے”۔ وہ فرماتا ہے کہ اگر نعمت کا شکر ادا کرو گے تو نعمتوں کی بارش کردوں گا اور ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔
اللہ نے ہمیں مختلف انداز سے یاددھانیاں کروائی ہیں کہ شائد انسان اپنے محبوب حقیقی کی طرف نظر التفات کرلے۔وہ فرماتا ہے کہ جب تم ماں کے بطن سے گود مادر میں آئے تو کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہ سمع و بصر اور دل ودماغ جس پر تم اتنا اتراتے ہو میں نے عطا فرمائے ۔ایک طرف تو ان نعمتوں کا تذکرہ کیا عام لوگوں کیلئے تو دوسری طرف میڈیکل سائنس کے ماہرین کو بتایا کہ تم نے آج یہ ثابت کیا ہے کہ انسان کو پہلے سماعت ملتی ہے بعد میں بصارت مگر رب العالمین نے چودہ سو سال قبل ہی یہ حقیقت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے جاری فرما دی تھی۔
وہ ہمارے کئی بھائیوں کو ان میں سے کچھ عطا نہیں بھی فرماتا۔شائد اس لئے کہ آنکھوں سے محروم کوئی شخص جب گلی گلی سے یہ پکارتا گزرے کہ” آنکھوں والو! آنکھیں بڑی نعمت ہیں” تو ہمیں ان کے نعمت ہونے کا واقعتاً احساس ہوجائے آپ غور فرمائیں تو نوزائیدہ بچہ نہ بول سکتا ہے نہ رفع حاجت کرنے کے قابل ہوتا ہے۔غلاظت کے اس ڈھیر کے لئے دودھ کی نہروں کے علاوہ ماں کے دل میں اتنا پیار بھی ڈال دیا کہ وہ ساری غلاظتیں اپنے دامن میں لے لیتی اور بچے کو صاف ستھری جگہ ڈالتی۔میں تو اس کو اس طرح دیکھتا ہوں کہ دنیا میں جو ماں کا کردار ادا کر رہی ہے وہ ماں نہیں بلکہ دائی ہے اصل ماں (پالنے والی ذات) تو وہ ہے جس نے اس دائی کے دل میں اتنا پیار ڈالا ہوتا۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ کے پیار کو ماپنے کے لئے ماں کے پیار کا پیمانہ استعمال کیا۔ آپ کسی سفر پر جا رہے تھے کہ ناگہاں کسی عورت کا بچہ کھو گیا۔ وہ بڑی بے چینی کے عالم میں پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ کافی وقت بعد وہ اسے اچانک نظر آیا تو اس نے بچے کو اپنی بانہوں میں جکڑ کر اسے بے شمار بوسے دیے۔ ایسی کیفیت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو تمہارا رب تم سے اس ماں سے بھی ہزاروں گنا زیادہ پیار کرتا ہے جب قرآن فرماتا ہے کہ ماں باپ کے سامنے اف تک نہ کہو تو میں سوچتا ہوں کہ جب ہم اس ماں کے سامنے اف نہیں کہہ سکتے تو اس حقیقی ماں کے سامنے اف کیسے کہہ سکتے ہیں اور اس کے حکموں کو پا کر ان کی نافرمانی کرنے کی جسارت کیسے کرسکتے ہیں۔ میں انسان میں موجود اعضاء اور نظام کو دیکھ کر کبھی کبھی خیال کرتا ہوں کہ جانے وہ خود کتنا پیارا ہوگا جس کی تخلیق اتنی پیاری ہے۔
انسان کے اندر اور باہر کے ماحول میں یہ نشانیاں ہم سے کچھ کہتی ہیں ۔ گاڑی میں جانے والا مسافر اپنے دوست کو دیکھ کر جب رومال لہراتا ہے تو اس کی حرکت سے دیکھنے والے کو ایک نتیجہ نکالنا ہوتا ہے اگر کوئی رومال کی رنگت’ اس کی دھاریوں’ اس کے کپڑے کے معیار پر غور کرنے لگے تو زمانے والے اسے احمق کہیں گے۔دراصل اس طرح کرنے سے اس کا مقصد اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا ہوتا ہے۔
اگر کوئی مہمان کسی کے گھر کھانا کھانے کے وقت سب باتوں کو لاجک سمجھ جائے کہ بلب میں روشنی پاور ہائوس سے آرہی ہے۔ پھول جو گلدانوں میں سجائے گئے ہیں یہ اس طرح گلدانوںمیں نہیں اُگتے بلکہ باغ سے لائے گئے ہیں۔بادلوں کو دیکھ کر ان کا سارا فلسفہ بیان کردے۔ غرض ہر چیز کے بارے بڑی عقل مندی سے متاثر کن کرتا جائے۔ کھانے پر بھی بڑی سیرحاصل گفتگو کر ڈالے مگر کھانا کھانے کے بعد میزبان کا شکریہ ادا کیے بغیر چلائے تو کوئی شخص بھی ایسے شخص کو عقلمند نہیں کہے گا۔ عقل بہت بڑی چیز ہے اس کی بنیاد پر انسان اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز ہوا ہے مگر یہی عقل اگر کسی جسم سے نکال دی جائے تو وہ پاگل کہلائے گا۔ یاد رہے کہ عقل اگر وحی کی روشنی سے ہٹ کر فیصلے کرے گی تو یہ باولی کہلائے گی۔خدا کا فرمان بھی کچھ اسی طرح سے ہے کہ جب میرے بندے آسمانوں اور زمین کی تخلیقات میں غور کرتے ہیں تو نتیجہ بے فکر کے طور پر بے ساختہ یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اے رب تو نے یہ سب بے کار پیدا نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ رب تو پاک ہے ہم کو آگ سے بچا کر اپنا دیددار نصیب فرما۔ بقول شاعر
تیری جنت کو یا رب کیا کروں
آرزو ہے تجھے دیکھا کروں

written by deleted-LrSojmTM


Comments are closed.