Oct
25
|
Click here to View Printed Statement
معروف معنوں میں نظرء یہ پاکستان دو قومی نظرء یہ ہے جس کی بنیاد پر 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور پاکستان معرض وجود میں آگیا۔قائداعظمؒ انگریز سامراج اور ہندو اکثریت کو اپنی سالہا سال کی جدوجہد کے دوران یہ باور کراتے رہے کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو دو قومیں ہیں جو تہذیبی‘مذہبی‘سیاسی اور تاریخی لحاظ سے بالکل مختلف ہیں ۔ہندوؤں نے مسلمانوں سے اپنی سدا بہار نفرت کے ذریعے بالآخر انگریزوں کو قائداعظمؒ کا مؤقف تسلیم کرنے پر آمادہ کردیا اور پاکستان کا قیام ممکن ہوگیا۔
دو قومی نظریہ نے ہی ثابت کیا کہ قومیں زبان‘رنگ اور نسل کے اعتبار سے ہی مختلف نہیں ہوتیں بلکہ مذہب کی بنیاد پر ان کی جداگانہ حیثیت قائم ہوتی ہے۔ اقبالؒ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا‘ قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘۔ہندوستان کے رہنے والوں کا رنگ ایک جیسا تھا‘ زبان ایک جیسی تھی اور شائد نسلی حوالے بھی ایک جیسے تھے۔ذات کے اعتبار سے ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوئے تھے لیکن مسلمان اللہ کے پیروکارجبکہ ہندوبت پرست۔ اگر تو اسلام کی جگہ کوئی اور مذہب ہوتا تو شائد معاملہ مختلف ہوتا لیکن اسلام کی تعلیمات مسلمانوں کو غیر مسلموں کی سماجی اور مذہبی برتری قبول کرنے سے روکتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہزار سال تک مسلمان اور ہندو مشترکہ طور پر اس خطے میں ز ندگی گذارتے رہے تھے لیکن یہ اسی صورت ممکن ہوا تھا کہ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود سیاسی اور مذہبی طور پر بالاتر تھے اور حکومت مسلمانوں کے پاس تھی۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اپنی ریاست قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ اسلام کا ہی سچاجذبہ تھا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنے پر اُبھارا۔ لہٰذا نظریہ پاکستان دراصل نظریہ اسلام ہی ہے۔
برصغیر میں اسلام کی اشاعت فتح مکہ کے فوری بعد سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ محمد بن قاسم کی آمد سے قبل بھی مسلمان مبلغین ہندوستان میں تبلیغ کی غرض سے آتے تھے اور ہندوستان کے باسی ان کی انسان دوستی سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرتے رہے۔ ہندو مذہب کی تنگ نظری نے اسلام کی اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ بعد میں علماء کرام اور اولیاء اللہ نے بھی اسلام کی تبلیغ جاری رکھی۔
اسلام کی اشاعت اسلامی ا سکالرز اور مبلغین کی صحبت اور کردار کے مرہون منت رہی ہے ۔اچھامبلغ اچھا استاد ہی ہوتا ہے ۔ لیکن اُستاد اور مبلغ میں ایک باریک سافرق ہے۔مبلغ ہر سطح کے ذہنوں سے مخاطب ہوتا ہے لیکن اُستاد نئی نسلوں کے ذہن و قلب کو سنوارنے کا نازک فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ اُستاد کو یہ اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اپنے دائرہ کار میں آنے والے معصوم ذہنوں میں کانٹے بودے‘چاہے پھول اُگائے۔اُستاد چاہے تو انسانی ذہن کو الحاد سے آلود کردے یا خداپرستی سے آشنا کردے۔ یہ اُستاد ہی ہے جو عام سے انسان کو کامیابیوں کے اوج سریا تک پہنچاتا ہے۔
پاکستان میں یوں تو ماشاء اللہ ننانوے فیصد مسلمان ہیں اور یہ فرض بھی کر لیا جاتا ہے کہ چونکہ مسلمان ہیں اس لئے اسلام سے دوری ناممکن ہے اور جب تک اسلام سے جُڑے ہیں پاکستان سے جُڑے ہیں۔ لیکن کچھ تلخ حقائق اس معروضے کے خلاف جارہے ہیں۔ہمارے ہاں ایسے ادارے‘ سکول اور کالجز ہیں جہاں استاد نظریہ پاکستان کے خلاف تبلیغ کرتے ہیں۔ وہ اسلام بیزاری کے فلسفے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ قیام پاکستان کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ خطرہ ہے جس بھانپتے ہوئے لاہور اور اسلام آباد میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔محب وطن پاکستانی اپنے اساتذہ اکرام سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور اسلامی تہذیب و آداب کو طلبہ و طالبات کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے اپنے سبجیکٹ کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان کو اپنی ذمہ داری کے طور پر پڑھائیں گے۔بچوں کے دلوں میں خدا کی محبت اور اس کی ہی فرمانبرداری کے بیج بوئیں گے کیونکہ بقول شاعر‘
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ ‘املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے توشمشیر بھی فتنہ‘شمشیرہی کیا نعرہ تکبیربھی فتنہ
وہ طلباء و طالبات کو بار بار یہ احساس دلائیں گے کہ اگر دو قومی نظریہ نہ ہوتا تو پاکستان نہ ہوتا۔قائد نے ایک موقع پر فرمایا‘’’اگر ہم دنیا کو زیادہ محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اصلاح کا کام افراد سے شروع کرنا پڑ ے گا‘‘۔ اگر پاکستان کوشورشوں سے بچانا ہے تو پھر اپنے قومی تشخص(اسلام) سے قربت اختیار کرنی ہوگی۔ملکوں اور قوموں کی مضبوط بنیادیں انسانی ذہنوں میں رکھی جاتی ہیں۔ یہ کٹھن کام ہے۔حالات ایسے ہیں کہ بچوں کی یکسوئی اور اعتماد ڈانواں ڈول ہوچکا ہے۔خود اساتذہ میڈیا سے متاثر ہورہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے پاؤں سے ہماری زمین کھینچی جارہی ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں استاد کا کردارابھرکر سامنے آتا ہے۔آپ توقع نہ کریں کہ اس فرض کے نبھانے سے آپ کو حکومت یا معاشرے کی طرف سے توصیفی الفاظ سننے کو ملیں گے۔لیکن یہ یاد رکھ لیں کہ اس کام کے کرنے سے آپ کے سٹوڈنٹس آگے بڑھیں گے۔ ان کے اندر ایک جذبہ بیدار ہوگا اور وہ کسی کاز کے ساتھ وہ منزلیں بھی طے کر لیں گے جو محض تعلیم برائے تعلیم کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔قائداعظمؒ نے فرمایا‘ معلم اور تعلیم کووطن سے محبت پیداکرنے کا ذریعہ ہونا چاہئے‘بقول شاعر‘
میں آدمی ہوں وطن کو نہ کس طرح چاہوں
عزیز رکھتی ہے چڑیا بھی کھونسلا اپنا