Jan
22
|
Click here to View Printed Statement
ہوسکتا ہے کہ نیت ٹھیک ہو۔لیکن اہلیت بہرحال نہیں ہے۔ حکمران قوم کو کوئی واضح جواب دینے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ پٹرول بحران کے پیٹ سے بجلی بحران بھی باہر نکل آیا ہے۔ماہرین معیشت مشکل اصطلاحات کے ذریعے عوامی ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں۔پٹرول پمپوں پر عورتوں کے ہجوم‘ہاتھ میں بوتلیں ‘پہلو میں بچے۔ظلم کی ایک یہ شکل باقی رہ گئی تھی وہ تجربہ کاروں کے ہاتھوںدیکھنے کو مل گئی ہے۔پٹرول روٹی نہ سہی لیکن روٹی کمانے کا ذریعہ تو ہے۔پاکستان کے منظرنامے میں یہ نظارے بھی شامل ہوگئے کہ دولہا اپنی بارات گدھا گاڑیوں پر لےجاتے دیکھے گئے۔ شدید سردی کے عالم میں پٹرول کے انتظار میں کھلے آسمان تلے رات گزارنے کا تکلیف دہ تصور ہی رونگٹے کھڑا کردیتا ہے۔لیکن وزیر پٹرولیم‘ پی ایس او‘وزارت خزانہ سب کے سب وزیراعظم نوازشریف کی موجودگی میں ”میری ذمہ داری نہیں“ کی رٹ لگاتے سنائی دیئے۔ عوام فقیروں کی طرح خوار ہوتے رہے۔ اعصاب شل ہوگئے۔پاکستانیوں نے ایک بار پھر سوچنا شروع کردیا ہے کہ آیا یہ مُلک رہنے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ میڈیا پورے زور وشور سے چیخ رہا ہے۔حکمران جماعت کے وزراءشرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ٹی وی پر آکر معذرت کرتے ہیں لیکن عوام کی تکالیف بڑھتی جارہی ہیں۔
وزیراعظم کے ترجمان جناب ڈاکٹر مصدق ملک بڑے ہی سمجھدار ‘ حوصلہ مند اورٹھنڈے مزاج کے شخص ہیں۔ایک معروف ٹی وی چینل کے پروڈیوسر رانا کاشف محمود نے راقم کو بھی اپنے پروگرام میں مدعو کیا ۔ میرا خیال تھا کہ ترجمان صاحب عُذر گناہ کی بجائے گناہ کا اقرار کرےں گے۔لیکن انہوں نے ناظرین کو معاشی جھمیلوں میں الجھانے کی کوشش کی۔مجھے پاکستان اکانومی واچ جیسا معتبر ادارہ چلاتے دس برس ہوچکے ہیں۔بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات سے ملک کے معاشی نظام پر گفتگو ہوتی ہے۔میرا اپنی تعلیمی پس منظر اور تجربہ بھی معاشی شعبے سے متعلق ہے۔پاکستان کے نام نہاد اقتصادی ماہرین اقتصادی اصطلاحات‘ حقائق اور اشاریے بڑے دلکش انداز میں ترتیب دیتے ہیں۔لیکن عوام کو ان گورکھدھندوں سے کیا غرض ہے۔ غریب کے لئے چاند بھی روٹی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔میں نے عرض کی کہ حکمرانوں کی نیت ٹھیک نہیں اور جب نیت ٹھیک نہ ہو تو پھر اہلیت بھی کسی کام نہیں آتی۔ سیاسی اخلاق یہ نہیں کہ آپ لفظی ادب و آداب کا مظاہرہ کریں بلکہ اصل سیاسی آداب یہ ہیں کہ عوام کو تکلیف میں مبتلا کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے اور وزارتوں کے سربراہ کو مثال قائم کرتے ہوئے اپنے عہدے سے اس وقت تک الگ ہوجانا چاہیے جب تک انکوائری میں اصل ذمہ داروں کا تعین نہیں ہوجاتا۔ محض جھوٹے بول کر وقت ٹالنے سے معاملات سُدھر نہیں سکتے۔بلکہ دھیرے دھیرے رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوجاتا ۔ اور حکمران اور ان کے ترجمان منافق دکھائی دینے لگتے ہیں۔ حدیث مبارکہ میں منافق کی چار نشانیاں بتائی گئی ہیں۔جن میں سے تین یہ ہیں وہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے تو توڑ دے اور جب امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ڈاکٹرمصدق ملک سے میں نے کہا کہ آپ بتا دیں کہ جن لوگوں میں یہ خامیاں پائی جائیں ان کے بارے میں لوگ کیا کہیں گے؟ اس پر ملک صاحب غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ آپ کو معیشت اور اقتصادیات کا علم ہی نہیں۔اور آپ قرآن اورا سلام کا سہارا لے کر موضوع سے ہٹ رہے ہیں۔
عرض کی کہ میں عوام کی معیشت کی بات کرتا ہوں کیونکہ حکمرانوں کی معیشت تو ہر سال بہتر ہوجاتی ہے ۔اسلام اور قرآن کی دی ہوئی ہدایات کی روشنی میں جو معاشی ذہن ترتیب پاتے ہیں وہی عوام الناس کی معیشت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اگر اللہ اور رسول کو نکال دیں تو باقی صرف لوٹ مار بچ جاتی ہے جو کہ جاری ہے۔آپ بتا دیں کہ پٹرول پمپوں پر ذلیل وخوار ہوتے عوام ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تُل گئے ہیں۔کیا ان کو اس ذہنی کیفیت تک پہنچانے والے دہشت گرد نہیں ہیں۔آپ تو سارے تجربہ کارلوگ ہیں اور یہ ظلم آپ کی تجربہ کاری کے سبب ہورہا ہے۔
ہلال احمر پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر سعید الٰہی ایک ٹی وی چینل پر پروگرام بھی کرتے ہیں ۔دوست ہیں اور محبت کرتے ہیں۔انہوں نے ”ڈی ایس این جی“ گاڑی بھجوا کر اسی موضوع پر لائیو کمنٹس لئے۔ میں نے عوام کی تشویش سے انہیں بھی آگاہ کردیا۔میرا مﺅقف ہے کہ پٹرول کے بحران نے حکومت کے گڈگورننس کے دعوﺅں کی قلعی کھول دی ہے۔ملک کے نصف سے زیادہ آبادی اور معیشت بحران سے بری طرح متاثر ہوئی ہے مگر حکومت اب بھی سنجیدہ نہیں۔